نازش کڈپوی
محبوب علی خاں کا تخلص نازشؔ ہے ان کی پیدائش سنہ 1936ء میں ہوئی۔ شہر کڈپہ کے معتبر شعرا میں محبوب علی خاں نازشؔ کا نام بھی لیا جا سکتا ہے۔ محبوب علی خاں نے اپنے قلمی نام نازشؔ کے نام سے چوبیس سال کی عمر میں شعر و سخن کی دنیا میں قدم رکھا۔ آپ کو ڈاکٹر شفا گوالیار اور حضرت طرفہ قریشی جیسے اساتذۂ فن سے شرف تلمذ ہونے کا موقع ملا۔
غزل گوئی
ترمیمآپ اپنے دور کے سنجیدہ شاعر تھے، آپ کی فکر کی گیرائی و گہرائی کا یہ عالم تھا کہ سیدھے سادے الفاظ کو تصوفانہ پیکر عطا کردیتے تھے۔ قرآن پاک کے سورۃ’’ق‘‘ آیت نمبر16 کا ترجمہ ’’ اور ہم انسان کے اس قدر قریب ہیں کہ اس کی رگِ گردن سے بھی زیادہ‘‘۔ نازش نے اس آیت سے استفادہ کرتے ہوئے شعر کہنے کی کوشش کی ہے۔ شعر ملاحظہ ہو: سمجھ میں آئے تو شہ رگ سے بھی قریب ہے تو نہ جان پائیں تو صدیوں کا فاصلہ ہے تو چند تصوفانہ رنگ کے اشعار ملاحظ ہوں: لیا ہے اپنی نظر کا جو امتحاں میں نے تو پایا ان کو ہر اک سمت ضوفشاں میں نے زباں خموش نگاہیں اداس تھیں میری کسی کو یوں بھی سنائی ہے داستاں میں نے
نازش کی غزلوں میں جدید رجحانات
ترمیمان کے زمانے میں ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا جب انھوں نے شاعری کی دنیا میں قدم رکھا تو ترقی پسند تحریک زوال پزیر ہو چکی تھی اور جدید رجحانات کا آغاز ہو چکا تھا۔ دور جدید میں شعر کہنے کے باوجود ان کی شاعری میں جدید رجحانات کم کم ہی نظر آتے ہیں۔ ایک دواشعار میں جدیدیت کا رنگ نظر آتا ہے اس میں جدید اسلوب اور وجودیت غالب ہیں چند شعر ملاحظہ ہوں:
” | کیا سوچ کر اڑا تھا فلک پر مرا وجود
کیا بات اب ہوئی کہ زمیں پر اتر گیا |
“ |
” | اس دور ترقی پر کیا ناز کروں نازش
بینائی اجالوں میں رہ کر بھی بھٹکتی ہے |
“ |
” | اے موت تو ہی اس سے تعارف کرا مرا
پہچانتی نہیں ہے مری زندگی مجھے |
“ |
نازش بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں ان کے اپنے ہم عصروں کی خواہش اور کدوکاوش کی وجہہ سے ان کا شعری مجموعہ ’’نازش دوراں‘‘ کے نام سے منظرعام پر آچکا ہے۔ عام طور پر ان کے مجموعے میں کل سات نعتیں ایک سو سے زیادہ غزلیں اور 16 قطعات موجود ہیں پروفیسر سلیمان اطہر جاوید ’’نازشِ دوراں‘‘ کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ان کی شاعری دل کی کم دماغ کی شاعری زیادہ ہے۔ وہ خود بھی غور و فکر سے کام لیتے ہیں اور قاری کو بھی دعوت فکر دیتے ہیں‘‘۔ ’’نازشِ دوراں‘‘ کے مطالعہ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی شاعری میں بہترین الفاظ کی بہترین ترتیب پائی جاتی ہے۔ اسی نسبت سے ڈاکٹر ساغر جیدی لکھتے ہیں کہ: ’’شاعر کی لفظ شناسی، معنی شناسی، علامت شناسی استعارہ شناسی تحسین آمیز ہے، الفاظ کے در و بست کے معاملے میں نازش صاحب احتیاط سے کام لیتے ہیں۔ اسے آپ لفظوں کا تقویٰ کہئے یا معنی کا فتویٰ سمجھیے، نازشؔ صاحب نے غزل کو نیم وحشی نہیں سمجھا ان کی غزل ریاضت کیش ہے‘‘۔ اسی نوعیت کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
” | چھوکر جمالِ یارِ نظر جب گذر گئی
محسوس یہ ہوا مری تاب نظر گئی |
“ |
” | میں لے چلوں جہاں بھی تجھے اے حیات چل
اب تجھ پہ میرا حق ہے مرا اختیار ہے |
“ |
” | مسکراتے ہوئے آکر گلے سے لگ جائے گا
کچھ سلیقے سے اگر اس کو پکارا جائے |
“ |
نازشؔ کبھی دل کا حوصلہ بلند رکھتے ہیں تو کبھی مایوسی کا شکار بھی ہوجاتے ہیں۔ انھیں بلند حوصلوں اور مایوسی کو اشعارکے پیکر میں ڈھالا ہے۔ چند شعر ملاحظہ ہوں:
” | تاریکیوں کو شب کی یہ نازشؔ مٹائیں گے
مٹی کے ان چراغوں میں کہتے ہو دم نہیں |
“ |
” | اب کہاں جاکر بنائیں آشیانہ اپنا ہم
جس چمن پر ناز تھا نازشؔ وہ ویراں ہو گیا |
“ |
” | ضرور کوئی نیا انقلاب آئے گا
یہ آج کے اندھیروں میں روشنی کیا ہے |
“ |
نازش عاجز و انکسار کے قائل ہیں۔ وہ اپنے آپ کو شبنم کی بوند سے تشبیہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
” | تو بحر بے کراں ہے میں شبنم کی بوند ہوں
میرا وجود کیسے ترے روبرو رہے |
“ |
نازش کا اسلوب جداگانہ اور اچھوتا ہے جس کی وجہہ سے نازشؔ شہر کڈپہ میں ایک منفرد مقام حاصل کرچکے ہیں۔
حوالہ جات
ترمیم- یہ مضمون امام قاسم ساقی کا مقالہ ‘‘ شعرائے کڈپہ میں جدید رجحانات ‘‘ اور ‘‘تاسیس ‘‘ سے لیا گیا ہے۔