نال صوبہ بلوچستان میں خصدار شہر سے ساڑھے چار کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ہے۔ کوئٹہ سے اس کا فاصلہ تقریباً تین سو بیس کلومیٹر ہے۔ اس کی آبادی کی جگہ ایک ٹیلے پر مشتمل ہے۔ جس کی نچلی چٹانوں میں متعدد قبریں ملی ہیں۔ ایک عرصہ تک یہاں سے بے حساب چیزیں لوٹیں گئیں۔ بہر حال جب پتہ لگا تو آبادی اور قبرستان دونوں کی کھدائی کی گئی۔ ابھی تک یہ طہ نہیں ہوا کہ اس جگہ آبادی پہلے بنی یا قبرستان۔ لیکن چونکہ جدید دور میں جب پہلے پہل مردوں کو دفن کرنے کا رواج ہوا تو قبرستان ہمیشہ آبادی کی مغرب جانب بنایا جاتا تھا۔ بعد میں یہ دستور وادی سندھ کی تہذیب میں بھی رہا اور یہی دستور آج بھی زندہ ہے۔ اگر قبرستان گاؤں مشرقی جانب ہو یعنی مغربی جانب ہو تو یہ یقین کیا جا سکتا ہے کہ قبرستان پرانا ہوگا اور اس کے قریب آبادی بعد میں بسی ہوگی۔ اس صورت میں مدفون قبروں کے رفتگان کسی اور گاؤں سے آئے ہوں گے۔ جو مشرق میں رہ ہوگا۔

اگر اس اصول کو پیش نظر رکھیں تو آبادی زیادہ پرانی ہوگی اور قبرستان انہی لوگوں کا ہوگا۔ قبروں میں سے 300 سو کے قریب برتن ملے ہیں۔ جن میں ایک سے زیادہ رنگ استعمال نہیں ہوئے ہیں۔ ان میں بعض میں پوری کی پوری لاش صحیح سلامت دفن کردی گئی ہے اور بعض میں صرف لاش کی ہڈیاں دفن کی گئیں ہیں۔ گویا آبادی میں بیک وقت دو رواج رہے ہوں گے۔ ایک جو مردوں کو دفن کرتے تھے اور دوسرے جو مردوں کو کہیں کھلے رکھ دیتے تھے۔ جب گدھ چیلیں اور کوئے لاش کا گوشت کھا جاتے تھے تو لاش کی ہڈیاں دفن کردیتے تھے۔ ان لاشوں کے ساتھ منقش برتنوں کے علاوہ تامبے کے اوزاروں کے ذخیرے بھی ملے ہیں۔ ان میں چبٹی کلہاڑیاں بھی ملی ہیں۔ جن میں بعض کے پھل دونوں کناروں پر مڑے ہوئے ہیں اور بعض سادہ بھی ملی ہیں۔ ان میں سے ایک قبر میں سنگ خارا کی بنی ہوئی ایک مہر ملی ہے۔ جس پر عقاب یا چیل بنا ہوا ہے۔ جس نے اپنے پنجے ایک سانپ گاڑ رکھے ہوئے ہیں۔ اس تصویر کا کیا مفہوم ہے؟ یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ ویلر اس کا رشتہ ہندو دیو مالا کے کردار ’ گاڑدوا ‘ سے جوڑتا ہے۔ ان قبروں میں بعض جگہ برتن لاش یا تو ہڈیوں کے پاس رکھے ہوئے ہیں اور بعض جگہ برتن کے اندر ہڈیاں رکھی ہوئی ہیں۔ جو ظاہر ہے کہ رحم مادر کی علامت ہے۔ ی[1]

حوالہ جات

ترمیم
  1. حیٰی امجد۔ تاریخ پاکستان قدیم دور