نبیذ
نبیذ: وہ مشروب جس میں کھجوریں ڈالی جائیں جس سے پانی میٹھا ہو جائے مگر (اعضا کو) سست کرنے والا اور نشہ آورنہ ہو، نشہ آور ہو تو اس کا پینا حرام ہے [1]
نبیذ کے معنی
ترمیمنبیذ بنا ہے نبذ سے بمعنی پھینکنا،ڈالنا،پھر پھینکی ہوئی چیز کو نبیذ کہنے لگے،اس کے بعد اس پھینکنے کے نتیجہ کو نبیذ کہنے لگے،یہاں آخری تیسرے معنی مراد ہیں۔
جوس
ترمیمنبیذ تازہ یا خشک پھلوں سے تیار کیا جانے والاجوس ہے، جوس بھی نبیذ ہی کی ایک قسم ہے۔ نبیذ عمومًا کھجور کے شربت (زلال نتھرا ہوا شربت)کو کہتے ہیں کہ رات کو کشمش یا کھجوریں پانی میں بھگو دی جاتی ہیں صبح کو وہ پانی نتھار کر پیا جاتا ہے اسے نبیذ کہتے ہیں۔ یہ بہت ہی مقوی اور زود ہضم ہوتاہے یہ حلال ہے بشرطیکہ خدشہ کو نہ پہنچے اگر بہت روز تک رکھا رہے تو جھاگ چھوڑ دیتا ہے اور نشہ آور ہے اب حرام ہو جاتا ہے کہ فرمایا گیا کل مسکرحرام۔
دور رسالت میں نبیذ
ترمیم’’کسی بھی خشک پھل (منقی یا چھوہارے) کو پانی میں ڈال دیا جاتا، جب وہ نرم ہو جاتا تو پھل کو ہاتھوں سے مسل کر کسی کپڑے سے اس کا پانی نچوڑ لیا جاتا تا کہ پھل کا پھوگ الگ ہو جائے، پھل کے اثر والا نچڑا ہوا پانی نبیذ کہلاتا ہے یہ ذائقہ دار اور مقوی ہوتاہے۔‘‘
نشہ دار کب ہوتا ہے؟
ترمیمصرف جوس پینے میں کوئی حرج نہیں لیکن شرط یہ ہے کہ اس میں نشہ پیدا نہ ہو، اس کی علامت یہ ہے کہ اس میں جھاگ پیدا ہو جائے یا ذائقہ میں ترشی محسوس ہونے لگے تو ایسے حالات میں اسے پینا درست نہیں۔ درست حالت میں جو نبیذ ہوتا ہے اسے گرمیوں میں ایک دن اور سردیوں میں تین دن تک پینے کی اجازت ہے کیونکہ زیادہ دیر تک پڑا رہنے کی وجہ سے اس میں نشہ آنے کا اندیشہ ہے۔ چنانچہ عائشہ صدیقہ کا بیان ہے کہ ہر مشروب پیا جا سکتا ہے مگر نشہ میں نہ آئے۔[2] عبد االلہ ابن عباس سے ایک آدمی نے پوچھا: ’’میں میٹھا نبیذ نوش کرتا ہوں تو پینے کے بعد میرے پیٹ میں گُڑ گُڑ ہوتی ہے، ابن عباس نے فرمایا کہ ایسی نبیذ مت نوش کرو اگرچہ وہ شہد سے زیادہ میٹھا ہو۔‘[3] یہی پرانا ہو اگر نشہ والا بن جاتا ہے جو اسلام میں میں حرام کا حکم رکھتا ہے