نذر صابری کااصل نام"غلام محمد" ہے۔ آپ ١نومبر،م، 1923ء کو مولوی علی بخش کے گھر ملتان میں پیدا ہوئے۔جالندھر آپ کے آباءو اجداد کا وطن ہے۔ آپ نے گورنمنٹ ہائی اسکول جالندھر سے میٹرک ،اسلامیہ کالج جالندھر سے بی۔ اے آنرز اور پنجاب یونیورسٹی سے ڈپلوما ان لائبریرین شپ کا امتحان پاس کیا۔ آپ کے اساتذہ میں مولوی عبد اﷲ اور سید فیضی کے اسماء شامل ہیں۔ آپ نے قرات و تجوید کے چند رسائل اپنے والد گرامی سے پڑھے۔ تقسیم ہندوستان سے قبل آپ اسلامیہ کالج جالندھر میں کتاب دار رہے۔ پاکستان کے قیام کے بعد پنجاب پبلک لائبریری میں اسسٹنٹ کیٹلاگر مقرر ہوئے بعد ازآں آپ گورنمنٹ کالج اٹک میں کتاب دار مقرر ہوئے یہاں آپ پروفیسر مرزا محمد رشید پرنسپل گورنمنٹ کالج اٹک کی دعوت پر آئے۔ آپ ریٹائر منٹ تک اسی ادارے سے وابستہ رہے۔ آپ نے دوران ملازمت ایم۔ اے فارسی کا امتحن بھی پاس کر لیا۔
نذر صابری نے 1938ء میں مشق سخن آغاز کی۔ شاعری کے ساتھ ساتھ تحقیق اور تنقید بھی آپ کی دلچسپیوں کے مرکز ہیں۔ آپ نے 1957 میں محفل شعرو ادب اور 1963ء میں مجلس نوادرات علمیہ کی بنیاد ڈالی یہ دونوں تنظیمیں تا حال مصرف عمل ہیں۔ یہ دونوں تنظیمیں ادبی افق کی درخشانی میں نمایاں مقام رکھتی ہیں۔ آپ دونوں تنظیموں کے بانی اور سیکرٹری ہیں۔[1]
- واماندگی شوق (نعتیه مجموعه)
- دیوان شاکر اٹکی (قصہ مشائخ)
- غایتہ الامکان فی معرفتہ الزمان و المکان
- انتخاب دیوان ظفر احسن۔
- باده ناخورده(فارسی مجموعه کلام)
چشم ما شد وقف بہر دیدن روی کسی | | ما کسی دیگر نمی دانیم در کوی کسی |
موسیٰ را بے کار کردہ نور بیضا و عصای | | بر فراز طور سینا حسن جادوی کسی |
چشم من آلودہ و روی نگار من صفا | | شرم می آید مرا از دیدن سوی کسی |
ہر کمال حسن و خوبی ختم شد بر روی او | | نیست در بازار امکاں ہم ترازوی کسی |
سست شد بال فرشتہ، پست قوسین و دنیٰ | | تنگ شد میدان عالم از تگا پوی کسی |
حاجت لعلی ندارم نی سر در عدن | | پر شدہ دامان دل از موج لولوی کسی |
حوریاں از شوق شعر نذر را بوسہ دہند | | زانکہ از انفاس او آید ہمی بوی کسی |
حسن تمام و لطف سراپا تمہی تو ہو | | روح نشاط و جان تمنا تمہی تو ہو |
دانندہ حقائق اشیاء تمہی تو ہو | | آئینہ مظاہر اسماء تمہی تو ہو |
شائستہ سعادت عظمیٰ تمہی تو ہو | | نازاں ہے جس پہ سیرت کبریٰ تمہی تو ہو |
ساماں طراز رنگ تماشا تمہی تو ہو | | چشم و چراغ دیدہ بینا تمہی تو ہو |
شایاں ہے تم کو مرجع حاجات کا لقب | | ہر درد لا دوا کا مداوا تمہی تو ہو |
لیتی ہے جس سے زندگی بھی درسِ زندگی | | وہ رشک صد ہزار مسیحا تمہی تو ہو |
ہر نقش پا سے جس کے بنے اولیاء کے دل | | وہ سرِ ناز وادی بطحا تمہی تو ہو |
عالم میں اور مرکز انوار کون ہے؟ | | اے آفتاب ملت بیضا تمہی تو ہو |
دنیا سے کیا غرض مجھے عقبی سے کیا غر | | عقبی تمہی تو ہو میری دنیا تمہی تو ہو |
جس کے لیے زوال نہیں کہنگی نہیں | | وہ صبح دلکشا، وہ سویرا تمہی تو ہو |
آنکھوں میں جس کی ڈوب گئی محفل الست | | وہ ساقی شراب طہورا تمہی تو ہو |
کونین جس کے سایۂ نعلیں میں آ گئے | | وہ شہ سوار عرصہ اسریٰ تمہی تو ہو |
یوں آ رہی ہے دل میں تری یاد مشکبار | | محسوس ہو رہا ہے کہ گویا تمہی تو ہو |
نمونہِ کلامِ پنجابی
ترمیم
مدینے دی راہاں توں تن وار دیواں | | دیار نبیؐ توں میں من وار دیواں |
ببولاں توں سرو و سمن وار دیواں | | سراباں توں گنگ و جمن وار دیواں |
خوشی نال تھپیڑے سہاں صر صراں دے | | سموماں تو بوئے سمن وار دیواں |
حرا، شعب تے ثور دی کھندراں توں | | بہشت بریں دی پھبن وار دیواں |
جے سپنے چے مکھڑے دی اک جھات پاواں | | تے جگراتیاں دی لگن وار دواں |
مسلماں جے ہو واں تے قدماں تو تیرے | | زباں وار دیواں وطن ور دیواں |
جلاں عود وانگوں تری جالیاں تے | | وجود اپنا تیں تھی سجن وار دیواں |