نذر، اصطلاح شرع میں وہ عبادت مقصودہ ہے جوجنس واجب سے ہواوروہ خود بندہ پرواجب نہ ہو،مگربندہ نے اپنے قول سے اسے اپنے ذمہ واجب کرلیاہومثلاً یہ کہا کہ میرا یہ کام ہو جائے تو دس رکعت نفل ادا کروں گا اسے نذر شرعی کہتے ہیں۔[1]

شرعی معنی ہیں غیر لازم عبادت کو اپنے پر لازم کرلینا قرآن میں شرعی معنی میں بھی استعمال ہو اہے رب تعالیٰ فرماتا ہے :

  • وَمَا أَنفَقْتُم مِّن نَّفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُم مِّن نَّذْرٍ فَإِنَّ اللّهَ يَعْلَمُهُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ

جو کچھ تم خرچ کرویانذر مانو کوئی نذر، اللہ اسے جانتا ہے۔

  • إِذْ قَالَتِ امْرَأَةُ عِمْرَانَ رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّي إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ

اے میرے رب میں نے نذر مانی تیرے لیے اس بچے کی جو میرے پیٹ میں ہے آزاد۔ پس قبول فرما مجھ سے ۔

  • ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ

چاہیے کہ یہ لوگ اپنی نذریں پوری کریں اور پرانے گھر کا طواف کریں۔

  • فَكُلِي وَاشْرَبِي وَقَرِّي عَيْنًا فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَدًا فَقُولِي إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمَنِ صَوْمًا فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنسِيًّا

میں نے اللہ کے لیے روزے کی نذر مانی ہے پس آج کسی سے کلام نہ کرو ں گی۔ ان جیسی آیات میں نذر سے شرعی معانی مراد ہیں یعنی منت ماننا اور غیر ضروری عبادت کو لازم کرلینا یہ نذر عبادت ہے اس لیے خدا کے سوا کسی بندے کے لیے نہیں ہو سکتی اگر کوئی کسی بندے کی نذر مانتا ہے تو مشرک ہے کیونکہ غیر خدا کی عبادت شرک ہے

نذر عرفی ترمیم

اولیاء اللہ کے نام کی جونذرمانی جاتی ہے اسے نذرِ(عرفی اور)لغوی کہتے ہیں اس کامعنی نذرانہ ہے جیسے کوئی شاگرد اپنے استاد سے کہے کہ یہ آپ کی نذ رہے یہ بالکل جائز ہے یہ بندوں کی ہو سکتی ہے مگراس کاپورا کرناشرعاًواجب نہیں مثلاًگیارہویں شریف کی نذراورفاتحہ بزرگان دین وغیرہ۔ عرفی معنی ہیں نذرانہ وہدیہ قرآن کریم میں یہ لفظ ان تینوں معانی میں استعمال ہوا ہے۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے:

  • وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لاَ تُفْسِدُواْ فِي الأَرْضِ قَالُواْ إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ

ہم نے تمھیں حق کے ساتھ بھیجا خوشخبری دینے والا ڈرسنا نے والا۔

  • إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَإِن مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خلَا فِيهَا نَذِيرٌ

نہیں ہے کوئی جماعت مگر گذرے ان میں ڈرا نے والے۔

  • وَسِيقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى جَهَنَّمَ زُمَرًا حَتَّى إِذَا جَاؤُوهَا فُتِحَتْ أَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ يَتْلُونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِ رَبِّكُمْ وَيُنذِرُونَكُمْ لِقَاء يَوْمِكُمْ هَذَا قَالُوا بَلَى وَلَكِنْ حَقَّتْ كَلِمَةُ الْعَذَابِ عَلَى الْكَافِرِينَ

کیا تمھارے پاس تم میں سے رسول نہ آئے جو تم پر تمھارے رب کی آیات تلاوت کرتے ہیں اور تمھیں اس دن کے ملنے سے ڈراتے۔

  • فَأَنذَرْتُكُمْ نَارًا تَلَظَّى

اور ڈرایا میں نے تم کو بھڑکتی ہوئی آگ سے۔

  • إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ

ہم نے قرآن شریف اتارا برکت والی رات میں ہم ہیں ڈرانے والے۔ ان جیسی بہت سی آیات میں نذر لغوی معنی میں استعمال ہو ا ہے بمعنی ڈرانا، دھمکانا۔ اس معنی میں یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے لیے بھی آتا ہے اور انبیا ء کرام کے لیے بھی اورعلماء دین کے لیے بھی۔

نذر لغوی ترمیم

نذر عرفی کو نذر لغوی بھی کہتے ہیں۔ چونکہ عبادت میں شرط یہ ہے کہ معبود کو الٰہ یعنی خدا یا خدا کے برابر ماناجائے، اس لیے اس نذر میں بھی یہی قید ہوگی کہ کسی کو خدایا خدا کے برابر مان کر نذر مانی جائے، اگر ناذ ر کا یہ عقیدہ نہیں ہے بلکہ جس کی نذر مانی اسے محض بندہ سمجھتا ہے تو وہ شرعی نذر نہیں اسی لیے فقہانے اس نذر میں تقرب کی قید لگائی۔ تقرب کے معنی عبادت ہیں ۔ یہ بھی خیال رہے کہ اگر کوئی کسی بندے کے نام پر شرعی نذر کرے یعنی اس کی الوہیت کا قائل ہو کر اس کی منت مانے تو اگر چہ یہ شخص مشرک ہوگا اور اس کا یہ کام حرام ہوگا مگر وہ چیز حلال رہے گی اس چیز کو حرام جاننا سخت غلطی ہے اور قرآن کریم کے خلاف۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :

  • مَا جَعَلَ اللّهُ مِن بَحِيرَةٍ وَلاَ سَآئِبَةٍ وَلاَ وَصِيلَةٍ وَلاَ حَامٍ وَلَـكِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ يَفْتَرُونَ عَلَى اللّهِ الْكَذِبَ وَأَكْثَرُهُمْ لاَ يَعْقِلُونَ

نہیں بنایا اللہ نے بحیرہ اور نہ سائبہ اور نہ وصیلہ اور نہ حام یہ مشرکین اللہ پر جھوٹ گھڑتے ہیں ۔ کفار عرب ان چا رقسم کے جانور وصیلہ حام وغیر ہ کو اپنے بتو ں کے نام کی نذر کرتے تھے اور انھیں کھانا حرام جانتے تھے۔ رب تعالیٰ نے ان کی تردید فرمادی اور فرمایا کہ یہ حلال ہیں جیسے آج کل ہندوؤں کے چھوڑے ہوئے سانڈ ھ حلال ہیں۔ اللہ کے نام پر ذبح کر و اور کھاؤ ۔

  • وَجَعَلُواْ لِلّهِ مِمِّا ذَرَأَ مِنَ الْحَرْثِ وَالأَنْعَامِ نَصِيبًا فَقَالُواْ هَـذَا لِلّهِ بِزَعْمِهِمْ وَهَـذَا لِشُرَكَآئِنَا فَمَا كَانَ لِشُرَكَآئِهِمْ فَلاَ يَصِلُ إِلَى اللّهِ وَمَا كَانَ لِلّهِ فَهُوَ يَصِلُ إِلَى شُرَكَآئِهِمْ سَاء مَا يَحْكُمُونَ

اور ٹھہر ایا ان کا فروں نے اللہ کا اس کھیتی اور جانوروں میں ایک حصہ پھر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کا حصہ ہے اپنے خیال پر اور یہ ہمارے شریکوں کا ہے ۔

  • وَقَالُواْ هَـذِهِ أَنْعَامٌ وَحَرْثٌ حِجْرٌ لاَّ يَطْعَمُهَا إِلاَّ مَن نّشَاء بِزَعْمِهِمْ وَأَنْعَامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُهَا وَأَنْعَامٌ لاَّ يَذْكُرُونَ اسْمَ اللّهِ عَلَيْهَا افْتِرَاء عَلَيْهِ سَيَجْزِيهِم بِمَا كَانُواْ يَفْتَرُونَ

اور کافر کہتے ہیں کہ یہ جانور اور کھیتی منع ہے اسے نہ کھائے مگر وہ جسے ہم چاہیں۔ ان آیات سے معلوم ہوا کہ کفار عرب اپنے جانوروں کھیتوں میں بتو ں کی نذرمان لیتے تھے او رکچھ حصہ بتو ں کے نام پر نامز د کردیتے تھے پھر انھیں کھانا یا تو بالکل حرام جانتے تھے جیسے بحیرہ، سائبہ جانور اور یا ان کے کھانے میں پا بندی لگاتے تھے کہ مرد کھائیں عورتیں نہ کھائیں فلاں کھائے فلاں نہ کھائے۔ ان دونوں حرکتوں کی رب نے تردید ان آیات میں فرمادی:

  • وَلاَ تَقُولُواْ لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَـذَا حَلاَلٌ وَهَـذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُواْ عَلَى اللّهِ الْكَذِبَ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللّهِ الْكَذِبَ لاَ يُفْلِحُونَ

اور نہ کہو اپنی زبانوں کے جھوٹ بتانے سے کہ یہ حلال ہے اوریہ حرام۔

  • قُلْ أَرَأَيْتُم مَّا أَنزَلَ اللّهُ لَكُم مِّن رِّزْقٍ فَجَعَلْتُم مِّنْهُ حَرَامًا وَحَلاَلاً قُلْ آللّهُ أَذِنَ لَكُمْ أَمْ عَلَى اللّهِ تَفْتَرُونَ

فرماؤ کہ بھلا دیکھو تو جو اللہ نے تمھارا رزق اتارا تم نے اس میں کچھ حلال بنایا کچھ حرام۔

  • قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللّهِ الَّتِيَ أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالْطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ قُلْ هِي لِلَّذِينَ آمَنُواْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَذَلِكَ نُفَصِّلُ الآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ

فرماؤ کس نے حرام کی اللہ کی زینت جو اس نے اپنے بندوں کے لیے نکالی اور ستھرا رزق۔

  • قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ قَتَلُواْ أَوْلاَدَهُمْ سَفَهًا بِغَيْرِ عِلْمٍ وَحَرَّمُواْ مَا رَزَقَهُمُ اللّهُ افْتِرَاء عَلَى اللّهِ قَدْ ضَلُّواْ وَمَا كَانُواْ مُهْتَدِينَ

ان کافروں نے حرام سمجھ لیا اسے جو اللہ نے انھیں رزق دیا اللہ پر جھوٹ باندھتے ہوئے ۔

  • يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُلُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُواْ لِلّهِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ

اے مسلمانو! کھاؤ وہ ستھری چیز یں جو ہم تمھیں رزق دیں اور اللہ کا شکر کرو اگر تم اس کی عبادت کرتے ہو۔

  • وَمَا لَكُمْ أَلاَّ تَأْكُلُواْ مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّهِ عَلَيْهِ وَقَدْ فَصَّلَ لَكُم مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ إِلاَّ مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ وَإِنَّ كَثِيرًا لَّيُضِلُّونَ بِأَهْوَائِهِم بِغَيْرِ عِلْمٍ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِينَ

اور تمھارا کیا حال ہے کہ نہیں کھاتے اس میں سے جس پر اللہ کانام لیا گیا ۔

  • إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللّهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ فَلا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

اللہ نے صرف مردار کو اور خون کو اور سورکے گو شت کو اور اس جانور کو جو غیر خدا کے نام پر ذبح کیاجائے تم پر حرام فرمایا۔

  • قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ قَتَلُواْ أَوْلاَدَهُمْ سَفَهًا بِغَيْرِ عِلْمٍ وَحَرَّمُواْ مَا رَزَقَهُمُ اللّهُ افْتِرَاء عَلَى اللّهِ قَدْ ضَلُّواْ وَمَا كَانُواْ مُهْتَدِينَ

بے شک نقصان میں رہے وہ جنھوں نے اپنی اولاد کو نادانی اور جہالت سے قتل کر ڈالااور اللہ کے دیے ہوئے رزق کو حرام کر لیا اللہ پر تہمت لگاتے ہوئے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے کفار عرب کے اس عقیدے کی پرزور تردید فرمائی جس جانور اور جس کھیتی وغیر ہ کو بت کے نام پر لگادیا جاوے وہ حرام ہوجاتا ہے۔ فرمایا: تم اللہ پر تہمت لگاتے ہو اللہ نے یہ چیزیں حرام نہ کیں تم کیوں حرام جانتے ہو، جس سے معلوم ہو اکہ بتوں کے نام کی نذر ماننا شرک تھا اور ان کا یہ فعل سخت جرم تھا مگر اس چیز کو حلال ٹھہرایا اس کے حرام جاننے پر عتاب کیا ،اسے حلال رزق اور طیب روزی فرمایا۔ ان بتوں کے نام پر چھوٹے ہوئے جانوروں کے متعلق حکم فرمایا کہ اللہ کے نام پر ذبح کرو اور کھاؤ کافروں کی باتوں میں نہ آؤ۔ ایسے ہی آج بھی جس چیز کو غیر خدا کے نام پر شرعی طور پر نذر کر دیا جائے وہ بھی حلال طیب ہے اگرچہ یہ نذر شرک ہے ۔ نذر کے تیسرے معنی عرفی ہیں یعنی کسی بزرگ کو کوئی چیز ہدیہ، نذرانہ، تحفہ پیش کرنا یا پیش کرنے کی نیت کرنا کہ اگر میرا فلاں کام ہو گیا تو حضو ر غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام کی دیگ پکاؤں گا یعنی دیگ بھرکھانا خیرات کر وں گا اللہ کے لیے اور ثواب اس کا سرکار بغداد کی رو ح شریف کو نذرانہ کرو ں گایہ بالکل جائز ہے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے ایسی نذریں بارگاہ رسالت میں مانی اور پیش کی ہیں او رحضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے قبول فرمائی ہیں نہ یہ کام حرام نہ چیز حرام۔ اسی کو عوام کی اصطلاح میں نیاز کہتے ہیں بمعنی نذرانہ۔ اس کا قرآن شریف میں بھی ثبوت ہے اور احادیث صحیحہ میں بھی۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :

  • وَمِنَ الأَعْرَابِ مَن يُؤْمِنُ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَيَتَّخِذُ مَا يُنفِقُ قُرُبَاتٍ عِندَ اللّهِ وَصَلَوَاتِ الرَّسُولِ أَلا إِنَّهَا قُرْبَةٌ لَّهُمْ سَيُدْخِلُهُمُ اللّهُ فِي رَحْمَتِهِ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

کچھ گاؤں والے وہ ہیں جو اللہ اور قیامت پر ایمان لاتے ہیں اور جو خرچ کریں اسے اللہ کی نزدیکیوں اور رسول سے دعا ئیں لینے کا ذریعہ سمجھتے ہیں یقینا ان کے لیے با عث قرب ہے اللہ جلد انھیں اپنی رحمت میں داخل کریگا۔ بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اس آیت میں بتایا کہ مؤمنین اپنے صدقہ میں دونیتیں کرتے ہیں۔ ایک اللہ کی نزدیکی اور اس کی عبادت، دوسرے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی دعائیں لینا اور خود حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا خوش ہونا۔ یہ ہی فاتحہ بزرگان دینے والے، ان کی نذر ماننے والے کا مقصد ہوتا ہے کہ خیرات اللہ کے لیے ہو اور ثواب اس بزرگ کے لیے تا کہ ان کی رو ح خوش ہو کرہمیں دعا کرے ۔ اسی لیے عوام کہتے ہیں، نذر اللہ، نیاز حسین، اس میں کوئی قباحت نہیں۔ جب نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ایک غزوہ سے بخیر یت واپس تشریف لائے تو ایک لڑکی نے عرض کیا : یَا رَسُوْلَ اللہِ اِنِّی کُنْتُ نَذَرْتُ اِنْ رَدَّکَ اللہُ صَالِحًا اَنْ اَضْرِبَ بَیْنَ یَدَیْکَ بِالدُّفِ وَاَتَغَنّٰی بِہٖ فَقَالَ لَہَا رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنْ کُنْتِ نَذَرْتِ فَاضْرِ بِیْ وَاِلَّا فَـلَا۔[2] حضور میں نے منت مانی تھی کہ اگر اللہ عزوجل آپ کو بخیر یت واپس لائے تو میں آپ کے سامنے دف بجاؤں اور گاؤں،سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : اگر تم نے نذرمانی ہے تو بجاؤ ورنہ نہیں۔ اس حدیث میں لفظ نذر اسی نذرانہ کے معنی میں ہے نہ کہ شرعی نذرکیونکہ گانا بجاناعبادت نہیں صرف اپنے سرور وخوشی کا نذرانہ پیش کرنا مقصود تھا جو سرکار میں قبول فرمایا گیا۔ یہ عرفی نذر ہے جو ایک صحابیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مانتی ہیں اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اس کے پورے کرنے کا حکم دیتے ہیں ۔ اسی مشکوۃ کے حاشیہ میں بحوالہ ملا علی قاری ہے وان کان السرور بمقدمہ الشریف نفسہ قربۃ۔[3]

حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری پر خوشی منانا عبادت ہے۔ غرض کہ اس قسم کی عرفی نذریں عوام وخواص میں عام طو پر مروج ہیں۔ استا د، ماں، باپ ،شیخ سے عرض کرتے ہیں کہ یہ نقدی آپ کی نذر ہے اسے شرک کہنا انتہا درجہ کی بیوقوفی ہے ۔

حوالہ جات ترمیم

  1. فتاوی امجدیہ، حصہ 2،ص312
  2. (مشکاۃ المصابیح،کتاب المناقب،باب مناقب عمر،الحدیث6048، المجلدالثانی،ص419،دارالکتب العلمیۃ بیروت)
  3. (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح،کتاب مناقب والفضائل، باب مناقب عمر،تحت الحدیث6048،ج10، ص403،دارالفکربیروت)