نامور فلم ساز، ہدایت کار اور اداکار

نذیر احمد خان ککے زئی پٹھان[1] گھرانے میں 1904ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ نذیر کی فلمی زندگی کا آغاز ایک خاموش فلم ’’مسٹریس بنڈت‘‘ سے ہوا تھا جو ان کے پرانے دوست اے آر کاردار نے بنائی تھی۔ 1933ء میں کاردار کلکتہ چلے گئے تو نذیر نے بھی ان کی پیروی کی۔ اس زمانے میں بہت سے مسلمان اداکار ہندوانہ نام اختیار کرکے فلموں میں کام کرتے تھے مگر نذیر نے اپنے مسلمان نام پر اصرار کیا اور اسی نام سے فلموں میں کام کرتے رہے۔ 1935ء میں ان کی فلم ’’چانکیہ‘‘ ریلیز ہوئی جس نے انھیں بے مثال شہرت عطا کی۔ اس زمانے میں ریلیز ہونے والی ان کی دیگر فلموں میں آب حیات، چندر گپت، بدروحی، دہلی کا ٹھگ، سنگدل سماجی، زرینہ، پریتما، پیاس اور اپنی نگریا وغیرہ شامل ہیں۔ 1939ء میں انھوں نے ہند پکچرز کے نام سے اپنا فلمی ادارہ بنایا۔اس ادارے کے تحت بننے والی فلموں میں سندیسا، کلجگ، سوسائٹی، آبرو، سلمیٰ، لیلیٰ مجنوں اور وامق عذرا نامی فلموں میں کام کیا۔ لیلیٰ مجنوں اور وامق عذرا میں سورن لتا کے ساتھ ان کی فلمی جوڑی بہت پسند کی گئی، اسی زمانے میں انھوں نے سورن لتا کے ساتھ شادی کرلی۔ قیام پاکستان کے بعد انھوں نے لاہور آنے کو ترجیح دی اور یہاں ’’سچائی‘‘ کے نام سے اپنی پہلی فلم بنائی۔ اس کے بعد ان کی بنائی ہوئی فلم ’’پھیرے‘‘ نے کامیابی کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ یہ پاکستان کی پہلی سلور جوبلی فلم تھی۔ ’’پھیرے‘‘ کی کامیابی کے بعد انھوں نے لارے، انوکھی داستان، خاتون، شہری بابو، ہیر، صابرہ،نور اسلام، عظمت اسلام، بلوجی اور شمع نامی فلمیں بنائیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے نوکر، حمیدہ اور سوال میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ نذیر احمد کو پاکستان کا پہلا کامیاب ہیرو تسلیم کیا جاتا ہے۔ ان کی مشہور فلموں میں اہم یہ ہیں، سوال (1966)، حویلی (1964)، بلو جی (1962)، شمع (1959)،نور اسلام (1957)، صابرہ (1956)، سوتیلی ماں (1956)، وحشی (1956)، حمیدہ (1956)، ناگن (1955)، نوکر (1955)، خاتون (1952)، بھیگی پلکیں (1950)، انوکھی داستان (1950)، ہماری بستی (1950)، غلط فہمی (1950)،لارے (1949)، پھیرے (1949)، سچائی (1947)، ہیر (1946)، وامق عذرا (1946)، گائوں کی گوری (1945)، لیلیٰ مجنوں (1945)، ناٹک (1944)، ماں باپ (1941)، سوامی (1941)، تاج محل (1940)، اپنی نگریا (1939)، جوش اسلام (1938)، باغبان (1938)، بھابی (1938)، دکھیاری (1936)، پریتما (1935)، دہلی کے ٹھگ (1934)، عراق کا چور (1934)، چندرا گپتا (1934)، نائٹ برڈ (1933)، آب حیات (1933)، زرینہ (1932)، سرفروش (1930) وغیرہ 26 اگست 1983ء کو وفات پاگئے، لاہور میں ماڈل ٹائون کے جی بلاک کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں،[2][3]

حوالہ جات

ترمیم

حوالہ جات

  1. https://www.express.pk/story/166259
  2. "آرکائیو کاپی"۔ 18 اپریل 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اگست 2020 
  3. https://jang.com.pk/news/166632