اردو کے نامور شاعر

پیدائش

ترمیم

4 جنوری 1950ء کو پشاور میں پیدا ہوئے ، ۔اُن کااپنانام نذیراحمداورقلمی نام نذیرتبسم ہے۔اُن کے والد کانام میر ا حمدتھا۔

تعلیم

ترمیم

نذیر تبسم کو گورنمنٹ پرائمری اسکول مچھی ہٹہ ،جس کا نیا نام مینا بازار ہے، میں داخل کروا دیا گیا۔ پانچویں جماعت میں گورنمنٹ ہائی اسکول نمبر 1 پشاور سٹی میں داخلہ لیا، جبکہ دسویں جماعت کا امتحان پاس کر کے ایف ایس سی اور بی اے گورنمنٹ کا لج پشاورسے کیا۔1974ءمیں ایم اے کا امتحان پشاور یونیورسٹی کے شعبہ اُردو سے پاس کیا۔ اس کے بعد اسی شعبہ سے 2003ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی۔

تدریس

ترمیم

اُنھوں نے ملازمت کا باقاعدہ آغاز فیڈرل گورنمنٹ کالج h.9اسلام آباد سے کیا۔اس دوران انھیں چھ مہینے تک اسلامیہ کالج پشاور میں پڑھانے کا موقع ملا اور 1978ءمیں شعبۂ اُردو پشاور یونیورسٹی میں مستقل لیکچرار کی حیثیت سے تعینات ہو گئے اور یہی سے 2010ء میں ریٹائرڈ ہوئے

شاعری

ترمیم

نذیر تبسم کا شعری مجموعہ ”تم اداس مت ہونا“ کے نام سے منظر عام پر آچکا ہے۔ ان کا بنیادی رویہ محبت ہے ان کی غزل میں بنیادی کردار دو ہیں ایک عاشق اور دوسرا محبوب۔ تیسرا کردار نظر نہیں آتا جسے ہماری غزل میں بہت اہمیت دی گئی اور جس سے محبت کی مثلث بنتی ہے یعنی عاشق، محبوب اور رقیب کردار۔ ان کی غزل میں رقیب کا کردار نہیں ہے۔ اور بہت حد تک اب وہ زمانہ زمانہ بھی نہیں رہا جو رکاوٹیں پیدا کرتا ہے اور معاشرتی حوالہ بھی کم ہے لہٰذا سکھ ہو یا دکھ اس کی ذمہ داردونوں خود ہیں ایک جگہ ایسا ہے کہ اس کا محبوب باوفا ہے وصل سے بھی نوازتا ہے لہٰذا وصل کی اور حسن کی بہت سی کیفیات اس کی غزل میں شامل ہیں۔

  • اتنی سی بات تھی جسے پر لگ گئے نذیر
  • میں نے اسے خیالوں میں چوما تھا اور بس
  • کسی کے قرب نے اتنا وقار تو بخشا
  • کہ اپنے لہجے سے ہم بے ہنر نہیں لگتے

اس کے ساتھ ساتھ ان کے ہاں سماجی حوالہ بھی موجود ہے کچھ مسائل بھی ہیں جس میں معاشرہ اور فرد دونوں شریک ہیں جو کیفیات کو دکھ عطا کرتے ہیں جو خالصتاً ترقی پسند نہیں بلکہ اس میں ہماری ذاتی اور اجتماعی مسائل ہیں جس میں ہجرت کا دکھ، بھوک کا المیہ اور بہت سے دکھ موجود ہیں۔

  • مجھے بچوں سے خوف آنے لگا ہے
  • وہ بچپن ہی میں بوڑھے ہو گئے ہیں
  • کتنی فصلیں میرے آنگن میں پکیں پھر بھی نذیر
  • میرے بچوں کے بدن میں بھوک کا سرطان تھا

تصانیف

ترمیم

ان کے شعری مجموعے یہ طبع ہو چکے ہیں،

  • کیسے رائیگاں ہوئے ہم
  • تم اداس مت ہونا
  • ابھی موسم نہیں بدلا