نشان والیہ مثل
نشانوالی مثل سکھ پنجابیوں کی 12 مثلوں میں ایک ہے۔ دسوند سنگھ بات اس کا پہلا مثل دار تھا اس کے نیچے 2000 سکھ تھے۔ نشانوالیہ مثل کے بانیوں میں سنگت سنگھ اور دسوندھا سنگھ دو بھائیوں کا نام آتا ہے۔ 1734ء میں دسوندھا سنگھ ترنا دل کے مہروں میں سے ایک تھا۔ وہ بڑا جاندار اور مضبوط آدمی تھا اس کے لیے جب کبھی دل خالصہ ایک علاقہ سے دوسرے علاقہ کے لیے کوچ کرتا تو دسوندھا سنگھ دل خالصہ کے آگے نشان صاحب لے کے مارچ کرتا۔ دسوندھا سنگھ تیغ کا بڑا دھنی تھا۔ کہتے ہیں کہ وہ رستم کی طرح شمشیر کے جوہر دکھاتا تھا۔ جنوری 1764 میں اس نے بھی اور مثل داراں کی طرح سرہند کی لڑائی میں شمولیت کی۔ اس وقت اس کو اس کے حصے میں سنگھانوالا، ساہنیوال، سرائے لشکری خان، دوراہا، املوہ، زیرا اور لدھڑ کے گاؤں ملے۔ بعد میں اس نے امبالہ اور شاہ آباد مارکنڈا پر بھی قبضہ کر لیا اور امبالہ کو اپنا صدر مقام بنایا۔ دسوندھا سنگھ 1767 میں سنگھانوالا سے 10-11 کلومیٹر کے فاصلے 'اور واقع گاؤں ڈرولی وکھے براڑاں سے لڑائی میں ماتھے میں گولی لگنے سے مارا گیا۔ دسوندھا سنگھ کی موت سے بعد اس کا بھائی سنگت سنگھ نشانوالیہ مثل کا سردار بنا۔ وہ بہت دلیر اور بہادر جنگجو تھا۔ اس نے دوسری مرتبہ سرہند پر حملہ کیا۔ اس نے اپنے دار الحکومت انبالہ کو چوروں-ڈاکوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اس کے گرد مضبوط دیوار بنوائی۔ سنگت سنگھ انبالہ میں زیادہ دیر نہ رہا کیونکہ اس کو وہاں کی آب و ہوا اور پانی موافق نہ آئے۔ اس نے انبالہ کا چارج اپنے سالے دھیان سنگھ کو کے دیا اور خود سنگھانوالہ جا کے رہنے لگ گیا۔ دھیان سنگھ نے اپنے چچا زاد گربخش سنگھ اور لال سنگھ کو ان علاقوں کے تھانیدار نامزد کیا اور وہ بھی سنگھانوالہ جا کے رہنے لگ گیا۔ کجھ وقت بعد 1774 میں سنگت سنگھ وفات ڈال گیا۔ دھیان سنگھ نے انبالہ کی طرف کوئی دھیان نہ دیا جس کی وجہ سے گربخش سنگھ اور لال سنگھ وہاں خود مختار راجے بن بیٹھے۔ لال سنگھ کے تین بیٹے تھے- موہر سنگھ، کپور سنگھ اور انوپ سنگھ۔ موہر سنگھ ستلج پار کے سکھ سرداروں میں اچھا اثر رسوخ رکھتا تھا۔ نشانوالیہ مثل کی طاقت سنگت سنگھ کے دنوں میں 12،000 گھڑ سواروں تک پہنچ گئی تھی۔ گربخش سنگھ کی موت سے بعد اس کی بیوہ رانی دئیا کور انبالہ کے کجھ علاقوں پر راج کرتی رہی۔ وہ بڑی انصاف پسند حکمران تھی۔ لیپل گرفن نے اس بارے لکھیا ہے: "She was an excellent ruler and her estate was one of the best managed in the protected territory." رانی دئیا کور بڑی انصاف پسند حکمران تھی۔ اگر کبھی کوئی چوری کرتا پکڑا جاتا تو رانی اس آدمی کے ہاتھ کٹوا دیتی۔ جو لڑکیوں کو چھیڑتے تھے، ان کی آنکھوں میں لال مرچیں ڈال کی جاتی تھی۔ سخت سزائیں دینے کی وجہ سے رانی کے انبالہ شہر والے گھر کو 'ظلم گڑھ' کہا جاتا تھا۔ یہ خوبصورت گھر تباہ و برباد ہوا یہ اور اس کی کجھ دیواریں ہی کھنڈر کے روپ میں کھڑی ہیں۔