نعیم الحبر رحمہ اللہ علیہ اہل کتاب تابعی تھے۔

نعیم الحبر رحمہ اللہ علیہ
معلومات شخصیت

نام ونسب ترمیم

نعیم نام تھا، شام کے رہنے والے اور مذہباً عیسائی تھے، کعب احبار کی طرح ان کا شمار بھی علمائے اہلِ کتاب میں تھا؛ چنانچہ حبر (عالم) ان کے نام کا جز ہو گیا تھا، مزدوری کرکے گزراوقات کرتے تھے۔ [1]

مطرف بن مالک ؒ تابعی بیان کرتے ہیں کہ عہدفاروقی میں جب تسترفتح ہوا تومالِ غنیمت میں ایک برتن ہاتھ آیا، جس میں ایک کتاب تھی، ہمارے ساتھ ایک نصرانی مزدور تھا، جس کا نام نعیم تھا، اس نے ہم لوگوں سے کہا کہ یہ برتن مع کتاب میرے ہاتھ فروخت کردو! ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کتاب فروخت کرنا نہیں چاہتے تھے؛ لیکن ہم لوگوں نے برتن کواس کے ہاتھ فروخت کر دیا اور کتاب ہدیۃً دے دی، ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کواطلاع دی، حضرت عمررضی اللہ عنہ نے لکھا کہ یہ کسی نبی کی کتاب ہے، اس کودفن کردینا چاہیے، بعض روایتوں میں ہے کہ نعیم خود اس برتن کوفروخت کرنے کے لی مسلمانوں کے پاس آئے انھوں نے برتن خریدلیا اور کتاب ان کوہدیہ کردی۔ [2]

قبولِ اسلام ترمیم

مطرف بن مالک ہی راوی ہیں کہ مجھے بیت المقدس جانے کا اتفاق ہوا، وہاں نعیم سے ملاقات ہوئی، میں نے ان سے پوچھا کہ تمھاری نصرانیت کا کیا حال ہے؟ نعیم نے کہا کہ میں تواب دینِ حنیف (یعنی اسلام) میں داخل ہو گیا ہوں۔ بیت المقدس میں نعیم اور کعب کی دعوتِ اسلام اور علمائے اہلِ کتاب کا قبولِ اسلام مطرف بیان کرتے ہیں کہ اس سفر میں نعیم کے ساتھ کعب احبار بھی تھے، جب ان کی آمد کی اطلاع یہود کوملی تووہ ان کے گرد جمع ہو گئے، کعب احبار کوجوکتاب تستر میں ملی تھی، انھوں نے اس کویہود کے سامنے پیش کیا اور کہا کہ یہ ایک قدیم کتاب ہے جوتمہاری کتاب (غالباً عبرانی) میں ہے، اس کوپڑھو، ایک شخص نے پڑھنا شروع کیا، جب وہ ایک خاص جگہ پرپہنچا تواس نے کتاب زمین پرپٹک دی، نعیم اس کی حر کت سے بہت ناخوش ہوئے اور کتاب کوانھوں نے اپنی گود میں اُٹھالیا اور اُن سے کہا کہ اب میں ہرگز اس کتاب کوتمھیں نہیں دونگا؛ لیکن انھوں نے جب بہت منت سماجت کی تونعیم نے کہا کہ اچھا میں اسے اپنے زانو پررکھ کربیٹھتا ہوں، تم میں سے کوئی شخص پڑھے؛ چنانچہ کتاب ان کے ہاتھ میں تھی اور ایک شخص اُسے پڑھ رہا تھا، جب وہ پڑھتے پڑھتے اس آیت: وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ۔ [3] ترجمہ:جواسلام کے علاوہ کوئی دوسرا دین چاہے گا، اس سے وہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ پرپہنچا توتقریباً بیالیس علمائے یہود اسی جگہ حلقہ بگوشِ اسلام ہو گئے (اس سے پہلے والے شخص نے غالباً اسی آیت پرپہنچ کرغصہ میں کتاب پھینک دی تھی، یہ آیت قرآن کی ہے؛ لیکن اسی واقعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کتبِ قدیم میں اس آیت کی پیشین گوئی موجود تھی، نعیم نے دوسرے سے اس لیے پڑھوایا کہ ان کے پڑھنے سے یہود کوشبہ ہوتا) افسوس ہے کہ اس سے زیادہ ان کے حالات معلوم نہیں ہو سکے۔

  1. (اصابہ، ذکرنعیم)
  2. (اصابہ، ذکرنعیم)
  3. (آل عمران:85)