نماز ارکان اسلام ہیں۔ نماز پڑھنا ہر مرد اور عورت پر فرض ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جہاں نماز پڑھنے سے ثواب ملتا ہے۔ وہاں ہماری ورزش بھی ہوتی ہے اور صحت مند جسم بنتا ہے۔ جس کی تفصیل درج ذیل میں ہے۔

نمازکے لیے طہارت کبریٰ کے ساتھ وضو کو بھی شرط قرار دیا گیا ہے وضو طہارت کا ایک ایسا اسلامی امتیازی عمل ہے جو کسی بھی مذہب میں نہیں پایا جاتا. سائنسی نکتہ نظر سے وضو ایک ایسا عمل ہے جس سے بدن کے وہ حصے صاف ہوتے ہیں جن کے ذریعے امراض جسم میں داخل ہوتے ہیں لہذا وضو کرنے کی وجہ سے انسان ہر قسم کے جراثیم سے دور رہتا ہے اور ڈپریشن ، بے چینی، بے سکونی، نیند کی کمی وغیرہ جیسے امراض کا خاتمہ ہوتا ہے۔

تکبیر ترمیم

اللہ پاک کا کوئی بھی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا پس اللہ رب العزت نے ہم پر نماز کا فریضہ مقرر کیا ہے تو یقیناً اس میں بھی ہمارے لیے بے شمار حکمتیں ہیں۔جدید سائنس پیراتائیکولوجی کی روشنی میں انسان گوشت پوست‘ خون اور ہڈیوں سے مرکب ایک پتلا نہیں بلکہ خاکی وجود کے اندر نوری جوہر بھی ہے اور یہ نوری جوہر ہی اصل ہے انسان کے اندر تین جرنیٹر کام کر رہے ہیں۔ انسان جب نیت باندھنے کے لیے دونوں ہاتھ اٹھا کر کانوں کی جڑوں پر انگوٹھے لگاتا ہے تو ایک خاص برقی رو کان کی جڑ میں موجود باریک رگ کو اپنا کنڈنسر بنا کر دماغ کی طرف جاتی ہے اور ان خلیوں کو چارج کرتی ہے جن کو شعور نظر انداز کررہا تھا اور جب یہ خلیے چارج ہوتے ہیں تو دماغ میں ایک روشنی کا جھماکر ہوتا ہے اور تمام اعصاب اس جھماکے سے متاثر ہوکر دماغ کے اس خاص حصے کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں جن میں روحانی صلاحیتیں مخفی ہیں۔ دوسری طرف دماغ سے ایک برقی رو ہاتھوں میں منتقل ہوجاتی ہے اور جب دوسرے جنریٹر نفس (زیرناف) پر ہاتھ باندھتے ہیں تو ہاتھوں میں موجود کنڈنسر سے ذیلی جرنیٹر میں بجلی کا ذخیرہ ہوجاتا ہے اور زیرناف ہاتھ باندھنے کی وجہ سے جنسی نظام کو طاقت ملتی ہے۔جب ہم ہاتھ کانوں تک اٹھاتے ہیں تو بازوؤں ، گردن کے پٹھوں اور شانے کے پٹھوں کی ورزش ہوتی ہے ۔ دل کے مریض کے لیے ایسی ورزش بہت مفید ہوتی ہیں ۔

قیام ترمیم

قد کا بڑا ہونا ترمیم

سائنسی تحقیق کے مطابق نماز میں قیام سے دل کا بار ہلکا ہو جاتا ہے کیونکہ وزن دونوں پاؤں پر متوازن پڑتا ہے اور آنکھیں سجدہ گاہ پر لگی رہنے سے دل کی یکسوئی سہل ہو جاتی ہے ۔ انسان میں قوت مدافعت اور اعصاب میں توانائی پیدا ہوتی ہے۔ اور رکوع سے کمر درد یا ایسے مریض جن کے حرام مغز میں ورم ہو گیا ہو ، بہت جلد صحت یاب ہو جاتے ہیں۔نیز رکوع سے گردوں میں پتھری بننے کا عمل سست پڑ جاتا ہے اور اگر پتھری بن گئی ہو تو رکوع کی حرکت سے بہت جلد نکل جاتی ہے رکوع کے عمل سے معدہ اور آنتوں کی خرابیاں اور پیٹ کے عضلات کا ڈھیلا پن ختم ہو جاتا ہے۔ رکوع کی حالت میں بالائی نصف جسم میں جھٹکے کی وجہ سے زیادہ خون پمپ ہوتا ہے ۔

قومہ ترمیم

طرح قومہ کرنے یعنی دوبارہ حالت قیام میں آ جانے سے چہرہ اور سر کا دوران خون جو حالت رکوع میں بڑھ گیا نارمل ہو جاتا ہے جس سے شریانوں میں لچک کی استعدادبڑھنے سے ہائی بلڈ پریشر اور فالج کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔ میڈیکل سائنس کہتی ہے کہ جب نمازی سجدہ کرتا ہے تو اس کے دماغ کی شریانوں کی طرف خون زیادہ ہو جاتا ہے جسم کی کسی بھی پوزیشن میں خون دماغ کی طرف زیادہ نہیں جاتا۔ صرف سجدے کی حالت میں دماغ، دماغی اعصاب اور سر کے دیگر حصوں کی طرف خون متوازن ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے دماغ اور نگاہ تیز ہو جاتے ہیں ایسے ہی جلسہ کرنا یعنی دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنا گھٹنوں اور پنڈلیوں کو مضبوط بناتا ہے اس کے علاوہ رانوں میں جو پٹھے اللہ تعالیٰ نے نسل کی بڑھوتری کے لیے بنائے ہیں ان کو خاص قوت حاصل ہو جاتی ہے جس سے مردانہ اور زنانہ کمزوریاں دور ہو جاتی ہیں تاکہ انسان دماغی اور جسمانی اعتبار سے صحت مند پیدا ہوتا ہے ۔ نماز کے اختتام پر جب ہم سلام پھیرتے ہیں تو اس عمل سے گردن کے عضلات کو طاقت ملتی ہیں اور انسان ہشاش بشاش اور توانا رہتا ہے نیز سینہ ہنسلی کا ڈھیلا پن ختم ہو جاتا ہے۔ان سب باتوں کا فائدہ اس وقت پہنچتا ہے جب ہم نماز پوری توجہ ، دل جمعی، پورے آداب اور سنت کے مطابق ادا کریں اور جلد بازی سے کام نہ لیں.

سلام ترمیم

سینہ اور پھسلی کا ڈھیلا پن ختم ترمیم

چونکہ خالقِ کائنات کا کوئی بھی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا ہے اس لیے نماز کے اوقات کا جو انتخاب کیا گیا ہے وہ بھی اپنے دامن میں بے پناہ حکمتیں سمیٹے ہوئے ہیں۔ اب ذرا ورق الٹئے اوقات نماز کے انتخاب کی اہمیت و حکمت سے فکر و نظر کو مشکبار کیجئے طبی نکتہ نظر سے نماز فجر کے وقت سوتے رہنے سے معاشرتی ہم آہنگی پر اثر پڑتا ہے، کیونکہ اجسام کائنات کی نیلگی طاقت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ رزق میں کمی اور بے برکتی آجاتی ہے۔ چہرا بے رونق ہو جاتا ہے۔ لہٰذا مسلسل فجر قضا پڑھنے والا شخص بھی انہی لوگوں میں شامل ہے۔ اور وہ لوگ جو مسلسل نماز ظہر چھوڑتے ہیں وہ بد مزاجی اور بدہضمی سے دوچار ہوتے ہیں۔ اس وقت کائنات زرد ہو جاتی ہے معدہ اور نظامِ انہضام پر اثر انداز ہوتی ہے۔ روزی تنگ کر دی جاتی ہے۔

سائنس کی جدید تحقیق سے یہ بات بھی عیاں ہوتی ہے کہ نماز عصر چھوڑنے والوں کی تخلیقی صلاحیتیں کم ہو جاتی ہیں اور عصر کے وقت سونے والوں کا زہن کند ہو جاتا ہے اور اولاد بھی کند ذہن پیدا ہوتی ہے۔ کائنات اپنا رنگ بدل کر نارنجی ہوجاتی ہے اور یہ پورے نظامِ تولید پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اور یہ بھی کہ مغرب کے وقت سورج کی شعاعیں سرخ ہو جاتی ہیں۔ جنات اور ابلیس کی طاقت عروج پر ہوتی ہے۔ اس لیے سب کام چھوڑ کر سب سے پہلے مغرب کی نماز ادا کرنی چاہیے۔ مغرب کے وقت سونے والوں کی اولاد کم ہوتی ہے یا ہوتی ہی نہیں اور اگر ہو بھی جائے تو نافرمان ہوتی ہے۔ ماہرین طب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نماز عشاء چھوڑنے والے ہمیشہ پریشان رہتے ہیں۔ کائنات نیلگی ہو کر سیاہ ہو جاتی ہے اور ہمارے دِماغ اور نظامِ اعصاب پر اثر کرتی ہے۔ نیند میں بے سکونی اور برے خواب آتے ہیں، جلد بڑھاپا آجاتا ہے۔

مذکورہ باتوں سے آسانی کے ساتھ یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ بے نمازی کی نہ دنیا ہے نہ ہی آخرت، کیونکہ یہ ہماری شیطان کے ساتھ گہری دوستی اور ہمارے گناہ ہی ہیں جو ہمیں ﷲ تعالٰی کے سامنے سجدہ ریز ہونے نہیں دیں گے دیتے۔ بیوقوف ہے وہ مسلمان جس کو پتہ بھی ہے کہ پہلا سوال نماز کا ہونا ہے پھر بھی وہ نماز قائم نہیں کرتا۔ جب جنت والے جہنم والوں سے پوچھیں گے کہ تمھیں کون سا عمل یہاں یعنی جہنم میں لے آیا تو وہ کہیں گے کہ افسوس! ہم نماز نہیں پڑھتے تھے۔ اللہ رب العزت ہمیں نماز کی توفیق بخشے اور دارین کی سعادتوں سے مالا مال فرمائے، آمین(ماخذ و مراجع: فتاوی رضویہ، القرآن العظیم، بہار شریعت، بحرالرائق، سنت نبوی اور سائنسی تحقیقات، مستند علاج نبوی)

.

حوالہ جات ترمیم

ماخذ و مراجع: فتاوی رضویہ، القرآن العظیم، بہار شریعت، بحرالرائق، سنت نبوی اور سائنسی تحقیقات، مستند علاج نبوی)[1]آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ newsatclick.com (Error: unknown archive URL)

خارجی روابط ترمیم