نماز توبہ
اللہ سبحانہ و تعالى كى اس امت پر رحمت ہے كہ اس نے توبہ كا دروازہ كھلا ركھا ہے اور يہ توبہ كا دروازہ اس وقت تك بند نہيں ہوگا جب تك روح نرخرے تك نہ پہنچ جائے، يا پھر سورج مغرب كى جانب سے طلوع نہ ہو جائے۔
اسى طرح اس امت پر اللہ تعالى كى يہ بھى رحمت ہے كہ اس نے ان كے ليے سب افضل ترين عبادات مشروع كى ہيں، جنہيں وہ وسيلہ بناتے ہیں اور اپنى توبہ كى قبوليت كى اميد رکھتے ہیں، جیسا كہ نماز توبہ ہے اور ذيل ميں اس كے متعلقہ چند ايك مسائل پيش كيے جاتے ہيں:
1 - نماز توبہ كى مشروعيت:
نماز توبہ كى مشروعيت پر اہل علم كا اجماع ہے۔
ابو داود رحمہ اللہ نے سنن ابو داود ميں ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے، وہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:
" جو كوئى بندہ بھى كوئى گناہ كرے اور پھر اچھى طرح وضوء كر كے دو ركعت نماز ادا كرے اور پھر اللہ تعالى سے بخشش طلب كرے تو اللہ تعالى اسے بخش ديتا ہے، پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ آيت تلاوت فرمائى:
{ اور جب ان سے كوئى فحش كام ہو جائے ن يا كوئى گناہ كر بيٹھيں تو فورا اللہ كا ذكر،اور اپنے گناہوں كے ليے استغفار كرتے ہيں، يقينا اللہ تعالى كے سوا كون گناہوں كو بخش سكتا ہے؟ اور وہ لوگ باوجود علم كے كسى برے كام پر اصرار نہيں كرتے }.
سنن ابو داود حديث نمبر ( 1521 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اس حديث كو صحيح ابو داود ميں صحيح كہا ہے۔
اور مسند احمد ميں ابو درداء رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو فرماتے ہوئے سنا:
" جو شخص اچھى طرح پورا وضوء كر كے پھر دو يا چار ركعت ( راوى كو شك ہے ) اچھى طرح خشوع و خضوع اور اللہ كے ذكر سے ادا كرتا اور پھر اللہ تعالى سے بخشش طلب كرتا ہے تو اللہ تعالى اسے بخش ديتا ہے "
مسند احمد كے محققين كہتے ہيں: اس كى سند حسن ہے اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے سلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 3398 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے۔
2 - نماز توبہ كا سبب:
نماز توبہ كا سبب مسلمان شخص كا معصيت و نافرمانى كا مرتكب ہونا ہے، چاہے گناہ كبيرہ ہو يا صغيرہ، تو اس سے اسے فورا توبہ كرنى چاہيے اور اس كے ليے يہ دو ركعت ادا كرنى مندوب ہيں اور پھر اسے توبہ كے وقت اللہ كا قرب حاصل كرنے كے ليے كوئى اچھا اور نيك عمل كرنا چاہيے اور ان اعمال صالحہ ميں سب سے زيادہ افضل نماز ہے، تو اس نماز كو اللہ تعالى كے ہاں اپنا وسيلہ بنا كر يہ اميد ركھنى چاہيے كہ اللہ تعالى اس كى توبہ قبول فرمائيگا اور اس كے گناہ بخش دے گا۔
3 - نماز توبہ كا وقت:
مسلمان شخص جب كسى گناہ سے توبہ كرنے كا عزم كر چكے تو اسے اس وقت نماز توبہ ادا كر كے توبہ كرنى چاہيے اور يہ اس گناہ كے فورا بعد ہو يا دير كے ساتھ اس ميں كوئى فرق نہيں، گنہگار شخص پر واجب ہوتا ہے كہ وہ توبہ كرنے ميں جلدى كرے، ليكن اگر وہ توبہ ميں تاخيركرتا ہے، يا پھر يہ كہے كہ توبہ كر لونگا اور بعد ميں توبہ كر لى تو اس كى توبہ قبول ہو جاتى ہے، كيونكہ توبہ اس وقت تك قبول ہوتى ہے جب تك درج ذيل امور ميں سے كوئى ايك چيز نہ ہو جائے:
1 - جب روح نرخرہ تك پہنچ جائے يعنى نرخرہ بجنے لگے تو توبہ قبول نہيں ہوتى.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" يقينا اللہ تعالى بندے كى توبہ اس وقت تك قبول كرتا ہے جب تك ا سكا نرخرہ بجنا نہ شروع ہو "
علامہ البانى نے صحيح ترمذى حديث نمبر ( 3537 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے۔
2 - جب سورج مغرب سے طلوع ہو جائے تو توبہ قبول نہيں ہو گى.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس نے بھى سورج مغرب كى جانب سے طلوع ہونے سے قبل توبہ كر لى اللہ تعالى اس كى توبہ قبول كرتا ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 2703 ).
اور يہ نماز ہر وقت ادا كرنى مشروع ہے، اس ميں ممنوعہ اوقات ( مثلا نماز عصر كے بعد ) بھى شامل ہيں، كيونكہ يہ نماز ان نمازوں ميں شامل ہوتى ہے جو كسى سبب كى بنا پرادا كى جاتى ہے، تو اس كے سبب كے وجود كى بنا پر نماز ادا كرنى مشروع ہو گى.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اسباب والى نمازوں كو اگر ممنوعہ وقت سے مؤخر كيا گيا تو وہ فوت ہو جائينگى، يعنى رہ جائينگى، مثلا: سجدہ تلاوت اور تحيۃ المسجد سورج گرہن كى نماز اور تحيۃ الوضوء كى دو ركعتيں، جيسا كہ بلال رضى اللہ عنہ كى حديث ميں ہے اور اسى طرح نماز استخارہ اگر كسى شخص كو استخارہ كى ضرورت ہو اور اسے مؤخر كيا جائے تو وہ رہ جائيگا اور اسى طرح نماز توبہ، تو جب گناہ كرے تو اس پر فورا توبہ كرنا واجب ہے اور اس كے ليے مندوب ہے كہ وہ دو ركعت ادا كر كے توبہ كرے، جيسا كہ ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ميں آيا ہے " انتہى.
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن تيميہ ( 23 / 215 ).
4 - نماز توبہ دو ركعت ہيں، جيسا كہ ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ميں آيا ہے۔
اور توبہ كرنے والے كے ليے اكيلے اور خلوت ميں نماز توبہ ادا كرنا مشروع ہے، كيونكہ يہ ان نوافل ميں سے ہے جن كى جماعت مشروع نہيں اور اس كے بعد اس كے ليے استغفار كرنا مندوب ہے، اس ليے كہ ابو بكر رضى اللہ كى حديث سے ثابت ہے۔
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ان ركعتوں ميں كوئى مخصوص سورتيں پڑھنا اور مخصوص اذكار ثابت نہيں، اس ليے وہ جو چاہے قرآت كر سكتا ہے۔
اور نماز توبہ كے ساتھ توبہ كرنے والے كے ليے مستحب ہے كہ وہ نيك اور صالحہ اعمال كرے، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ اور ہاں يقينا ميں انہيں بخش دينے والا ہوں جو توبہ كريں اورايمان لائيں اور نيك عمل كريں اور راہ راست پر بھى رہيں }طہ ( 82 ).
اور توبہ كرنے والے كے ليے نيك اور صالحہ اعمال ميں سب سے افضل عمل صدقہ ہے، كيونكہ صدقہ گناہوں كو مٹانے والے اسباب ميں سب سے بڑا اور عظيم عمل ہے۔
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
{ اگر تم صدقہ و خيرات ظاہر كرو تو وہ بھى اچھا ہے اور اگر تم اسے پوشيدہ پوشيدہ مسكينوں كو دے دو تو يہ تمھارے حق ميں بہتر ہے، اللہ تعالى تمھارے گناہوں كو بخش دے گا }البقرۃ ( 271 ).
اور كعب بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ سے ثابت ہے كہ جب اللہ تعالى نے ان كى توبہ قبول كى تو وہ كہنے لگے:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميرى توبہ ميں شامل ہے كہ ميں اپنا سارا مال اللہ اور اس كے رسول كے ليے صدقہ كردوں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اپنا كچھ مال ركھ لو، يہ تمھارے ليے بہتر ہے "
تو وہ كہنے لگے: ميں اپنا خيبر والا حصہ روك ليتا ہوں "
متفق عليہ۔
تو خلاصہ يہ ہوا كہ:
1 - نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے نماز توبہ ثابت ہے۔
2 - يہ نماز مسلمان كے ليے مشروع ہے جب بھى وہ كوئى گناہ كرے اور اس سے توبہ كرنے ليے نماز توبہ ادا كرے، چاہے گناہ كبيرہ ہو يا صغيرہ اور چاہے گناہ كے فورا بعد توبہ ہو يا كچھ مدت گزرنے كے بعد۔
3 - نماز توبہ ہر وقت ادا كى جا سكتى ہے، اس ميں ممنوعہ اوقات بھى شامل ہيں۔
4 - توبہ كرنے والے كے ليے نماز توبہ كے ساتھ ساتھ اللہ كے قرب والے دوسرے اعمال بھى كرنے مستحب ہيں، مثلا صدقہ وغيرہ۔
اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ا نكى آل اور ان كے صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے۔