نواب صدر جہان بیگم
نواب بیگم اودھ کے پہلے والی نواب برہان الملک سعادت علی خان میر محمد امین کی بیٹی، نواب صفدر جنگ کی بیگم، نواب شجاع الدولہ کی والدہ اور نواب آصف الدولہ کی دادی تھیں- نواب بیگم نہایت پاکدامن ، خدا ترس، باحیا، فیاض، زیرک اور حوصلہ مند خاتون تھیں۔
تعارف
ترمیمنواب صدر جہان بیگم کا نام بعض تذکرہ نگاروں نے صدرالنساء بیگم لکھا ہے۔ اس کے والد کا نام نواب سعادت خان برہان الملک میر محمد امین والی اودھ تھا- نواب بیگم برہان الملک کی سب سے بڑی بیٹی تھی- 9والدین نے اس کی تعلیم و تربیت بڑے اہتمام سے کی چنانچہ اسے نہ صرف علوم دین میں دسترس ہو گئی بلکہ وہ نہایت اعلی اخلاق سے بھی آراستہ ہو گئی-
تخت نشینی
ترمیمنواب صدر جہان بیگم کی شادی اپنی پھوپھی زاد مرزا محمد مقیم سے ہوئی جسے محمد شاہ بادشاہ نے صفدر جنگ کا خطاب عطا کیا تھا- برہان الملک اور صفدر جنگ دونوں شاہی دربار میں اعلى مناصب پر فائز تھے۔ بادشاہ نے برہان الملک کو اودھ کا صوبہ دارمقرر کیا تو صفدر جنگ بھی اہلیہ کے ساتھ اپنے ماموں (خسر) کے پاس اودھ چلے گئے۔ برہان الملک نے صفدر جنگ کو اپنا نائب مقرر کیا- جب برہان الملک نے وفات پائی تو محمد شاه بادشاه نے اس کی بیٹی نواب صدر جہان بیگم کو اودھ کی صوبہ داری کا پروانہ عنایت کیا کیونکہ برہان الملک کا ایک کمسن لڑکا جسے باپ کی وفات کے بعد اودھ کا صوبہ دار نبایا گیا تھا چند دنوں کے بعد چیچک میں مبتلا ہوکر فوت ہو گیا تھا۔ نواب صدر جہان بیگم نے اپنی طرف سے اپنے شوہر صفدر جنگ کو صوبے کا منتظم بنا دیا۔
بغاوت
ترمیمنادر شاہ کے حملوں کے نتیجے میں سارے ہندوستان میں ہلچل مچ گئی اور جگہ جگہ فتنہ و فساد کی آگ بھڑک اٹھی۔ اسی زمانے میں امیٹھی (ضلع لکھنؤ) کے شیخوں نے حکومت اودھ کے خلات علم بغاوت بلند کیا اور ایک لاکھ سے زیادہ گنوار اپنے ساتھ ملا لیے۔ صفدر جنگ نے بوجہ ان کے مقابلے پر جانے سے پہلوتہی کی۔ اس پر نواب صدر جہان بیگم نے اس کو غیرت دلائی اور لکھنؤ سے باہر اپنی فوج جمع کرنے پرآمادہ کیا۔ جب یہ منظم فوج توپ خانے سمیت شہر سے باہر خمیہ زن ہوئی تو تمام باغی مرعوب ہو کر تتر بتر ہو گئے- اگر اس موقع پر نواب صدر جہاں بیگم غیر معمولی جرات اور حوصلے سے کام نہ لیتی تو شاید حکومت کا خاتمہ ہو جاتا۔ اس طرح نواب بیگم اکثر اپنے خاوند کو نہایت قیمتی مشورے دیتی رہتی تھی۔
شجاع الدولہ کا عہد
ترمیمنواب صدر جہاں بیگم کے بطن سے صفدر جنگ کا بیٹا شجاع الدولہ پیدا ہوا۔ جب 1168ھ میں صفدر جنگ نے وفات پانی توشجاع الدولہ باپ کا جانشین ہوا۔ اسی زمانے میں اسے انگریزوں کو ادا کرنے کے لیے چالیس لاکھ روپیہ کی ضرورت پڑی۔ بیس لاکھ تو ادا کر دیے گئے لیکن باقی بیس لاکھ کے لیے سخت پریشانی ہوئی۔ اس موقع پر نواب صدر جہان بیگم کو جب شجاع الدولہ کی پریشانی کا علم ہوا تو اس نے اسے بیس لاکھ روپیہ بھیج دیا۔ شجاع الدولہ کے آغاز حکومت میں اودھ کے کھتریوں نے کچھ مغل سرداروں کے ساتھ مل کر اس کو معزول کرنے کی سازش کی مگر نواب صدر جہاں بیگم نے ایسی تدابیر اختیارکیں کہ سازش ناکام ہو گئی اور شجاع الدولہ نے اکیس سال اودھ پرحکومت کی۔
سیرت
ترمیمتذکرہ نگاروں کا بیان ہے کہ نواب صدر جہان بیگم نہایت پاکدامن ، خدا ترس، باحیا، فیاض، زیرک اور حوصلہ مند خاتون تھیں۔ نواب بیگم نے اپنے بیٹے کا پورا دورحکومت دیکھا۔ اس زمانے میں اودھ کا دار الحکومت فیض آباد تھا- نواب صدر جہاں بیگم نے اس کو خوب آباد کیا تاہم اس کی احتیاط اور پرہیزگاری کی کیفیت یہ تھی کہ فیض آباد کی زمین کے اصل مالکوں کو بڑی مشکل سے تلاش کیا اور زمین کی قیمت ادا کی تا کہ غضب کا گناہ اس کے سرپر نہ آئے اور قلعہ کے اندر بننے والی مسجد بھی غضب کی آلائش سے پاک رہے۔ اس کا معمول تھا کہ سال میں تین مہینے روزے رکھا کرتی تھی- غرباء و مساکین کی مدد پر ہروقت آمادہ رہتی تھی۔ مفاد عامہ کے سلسلے میں اس نے کئی عمارتیں تعمیر کرائیں. .
وفات
ترمیمنواب شجاع الدولہ نے 1189ھ بمطابق 1775ء میں وفات پائی تو اس کا بیٹا (نوب بیگم کا پوتا) آصف الدولہ مسند نشین ہوا- اسی کے عہد حکومت میں نواب صدر جہان بیگم نے اکیانوے برس کی عمر میں وفات پائی اور اپنے بیٹے نواب شجاع الدولہ کی قبر کے پاس گلاب باڑی میں دفن ہوئی۔ [1]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ تاریخ اسلام کی چار سو باکمال خواتین مولف طالب الہاشمی صفحہ 503 اور 504