نہال چند لاہوری کے اجداد کا تعلقدہلی سے تھا۔ دلی کی تباہی کے بعد نہال چند لاہور چلے گئے اس لیے لاہوری کہلائے۔ فورٹ ولیم کالج کلکتہ میں ایک کپتان کی وساطت سے ملاز م ہوئے ۔
نہال چند لاہور نے ”گل بکاولی“ کے قصے کو فارسی سے اردو میں ترجمہ کیا اور اس کانام ”مذہب عشق “رکھا۔ مترجم نے اپنے ترجمے کو اصل سے قریب رکھتے ہوئے تکلفات سے بچنے کی کوشش کی ہے۔ مترجم نے لفاظی کی جگہ سادگی اختیار کرکے قصے کودلچسپ اور عام فہم بنادیا ہے۔ ان کی تاریخ پیدائش اور وفات کے متعلق وثوق سے کچھ نہیں کا جا سکتا۔

نہال چند لاہوری کی سیرت اور شخصیت کے گرد نامعلوم حقائق کا ہالہ ہے۔سوائے اس کے کہ نہال چند لاہوری کا مولد و مسکن میر امن دہلوی کی شہرۂ آفاق دہلی ہے اور ان کے آبا و اجداد شاہ جہان آباد کے باسی تھے،سب کچھ پردۂ اخفا میں ہے۔نہ تاریخِ پیدائش ملتی ہے، نہ تاریخِ وفات اور نہ ہی شجرۂ نسب۔کہا جاتا ہے کہ دہلی کی طوائف الملوکی کے سیلاب میں اس عہد کے تمام بیش قیمتی حقائق بہہ گئے۔ شرفائے شہر اور اہلِ علموں کو جب نئے جائے اماں کی تلاش ہوئی تو نہال چند لاہوری عروس البلاد لاہور کی پناہ میں آگئے اور اسی نسبت سے’لاہوری‘ کہلائے۔نہال چند لاہوری کی تعلیم و تربیت کہاں ہوئی؟،کس ماحول میں ہوئی؟،افتادِ طبع کیسی تھی؟،کن اساتذہ کے ہاتھوں فارسی اور ریختہ میں صیقل ہوئے تھے،ہنوز وقت کی گرد میں گم ہیں۔نہال چند کے لاحقے ’لاہوری‘ کی بھی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں ملتی۔بذاتِ خود انھوں نے اپنے سوانحی حالات میں کہیں بھی ’لاہوری‘ کی وضاحت نہیں کی اور نہ ہی قیامِ لاہور کی اطلاع دی ہے۔ممکن ہے یہ بدعت ان کے تذکرہ نگاروں کی ہو، جنھوں نے دہلی کی طوائف الملوکی سے پیداشدہ حالات میں لکھنؤ،عظیم آباد اور دکن کی جانب اہلِ کمال کی مہاجرت کے پس منظر میں ’لاہوری‘لاحقے کی مناسبت سے احتمالاً یہ نتیجہ مستنبط کر لیا ہو کہ دہلی کے بعد لاہوراُن کا دوسرا مستقر ٹھہرا۔البتہ اتنی بات تو طے ہے کہ فکرِ معاش نے انھیں 1802ء میں کلکتہ پہنچایااور پھر یہیں ’مذہبِ عشق‘ کے ترجمے و تالیف کے سبب انھیں شہرتِ دوام حاصل ہوئی۔

نہال چند لاہوری لاہور سے کلکتہ کیسے پہنچنے، یہ درمیانی کڑیاں بھی غائب ہیں۔البتہ یہ سبھی جانتے ہیں کہ ایک دیرینہ واقف کار انگریز ڈیوڈ روبرٹسن کے توسل سے لاہوری ڈاکٹر گل کرسٹ کے حلقہئ اعتماد میں آئے اور بقول سید محمد صاحب”فورٹ ولیم کالج کے شعبہئ تالیف و تراجم میں ملازم رکھ لیے گئے“ تاہم یہ امر بھی اختلاف سے مبرّا نہیں،ڈاکٹر عبیدہ بیگم نے نہال چند کو سرے سے فورٹ ولیم کالج کا ملازم تسلیم نہیں کیا اور لکھا ہے کہ ”نہال چند شعبہئ ہندوستانی کے باضابطہ ملازم نہیں تھے“۔ڈاکٹر عبیدہ بیگم کے موقف کی توثیق 9/ستمبر1803میں کالج کونسل کو بھیجی گئی گل کرسٹ کی اس رپورٹ سے بھی ہوتی ہے،جس میں کالج کے غیر تنخواہ دار مصنفین کی کتب پر انعام کی سفارش کی گئی تھی۔ اس طرح نہال چند کے شخصی احوال و کوائف کا باب خاصا اختلافی بلکہ بڑی حد تک نزاعی ہے۔ان شرربار، شکستہ بلکہ گم شدہ کڑیوں کے باوجود نہال چند کا نام اردو نثر کی تاریخ کا نشانِ راہ بنا ہوا ہے۔ان کی بنیادی حیثیت ایک مشّاق مترجم اور سلیس نثر نگاری کے رجحان کی پرورش کرنے والے کی بنتی ہے۔”گل بکاؤلی مسمّیٰ بہ ’مذہبِ عشق‘۔ نثر بہ زبانِ ہندی۔ قصّہ“ان کا نثری کارنامہ ہے،جس پر نہال چند کی ناموری کی پوری عمارت ایستادہ ہے۔

ہندوستان کی لوگ کہانیوں میں گل بکاؤلی کی کتھا نے بڑی شہرت پائی۔شیخ عزت اللہ بنگالی نے اسے فارسی میں لکھا تھا۔نہال چند نے اسے فارسی سے اردو میں منتقل کیا اور ’مذہبِ عشق‘ سے موسوم کیا۔یہی نثری قصّہ بعد میں پنڈت دیا شنکر کول نسیم کے ہاتھوں مثنوی گلزارِ نسیم کی شکل میں پیش ہوا۔اپنی نوعیت کے اعتبار سے لاہوری کا ’مذہبِ عشق‘ بنگالی اور نسیم دونوں سے جداگانہ حیثیت کا حامل ہے۔یہ نہ تو فارسی ہے اور نہ منظوم اردوبلکہ اس کا خمیر وقت کی عوامی اور رابطے کے طور پر ابھرتی ہوئی زبان اردو سے اٹھایاگیا ہے۔وہ عوامی زبان جس پر بدیسی حکومت کی نگاہیں مرکوز تھیں اور جسے حاکم وقت اپنی استعماری سطوت اور تفکیری میلانات کی توسیع اور نفاذ کی خاطر ایک حربے (Tool)کے بطور ترقی دینا چاہتا تھا۔یہاں یہ دیکھنا بھی دلچسپی کا باعث ہے کہ گل بکاؤلی کی کہانی سے سروکار رکھنے والے متون کس طرح لمحہ بہ لمحہ تیزی سے ایک دوسرے متن کی مقبولیت پر خاک ڈال کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔گل بکاؤلی کی لوک کتھا اولاً فارسی زبان میں ضبط تحریر میں لائی گئی مگر لاہوری کے اردو پیراہن نے اصل فارسی متن یا ماخذ کو حاشیے پر ڈال دیا،اس طرح کہ عزت اللہ بنگالی اپنے کارنامے کے ساتھ ذہنوں سے تقریباً اوجھل ہو گئے۔نسیم کی مثنوی کی بدولت کچھ ایسا ہی حشر نہال چند لاہوری کے ’مذہبِ عشق‘کا بھی ہوا۔سالک لکھنوی کے بقول: ”نسیم لکھنوی کی مثنوی اتنی مقبول ہوئی کہ نہال چند لاہوری کا ترجمہ ماند پڑ گیا، لوگ نہال چند کا نام بھول گئے۔یاد رہا تو صرف گل بکاؤلی کا قصّہ“۔

’مذہبِ عشق‘ کا قلمی نسخہ ایشیاٹک سوسائٹی آف بنگال (کلکتہ) کی لائبریری میں موجود ہے۔ انٹرنیٹ پر ایک نسخہ مولانا آزاد لائبری، علی گڈھ مسلم یونیورسٹی کے حوالے سے موجود ہے،جس کے صفحات کی تعداد: 102ہے اور یہ نسخہ باتصویر ہے،اس میں کل 12 تصاویر ہیں۔ ایک صفحے پر عموماً 19سطور ہیں۔ اس کی سن اشاعت1873مندرج ہے۔یہ خطِ نستعلیق میں ہے۔ انٹرنیٹ پردستیاب ’ریختہ کتب‘ کے ذخائر میں ’مذہبِ عشق‘ (5) کا جو نسخہ موجود ہے،اس پر سن اشاعت 1803درج ہے۔یہ خلیل الرحمٰن داؤدی کا مرتب کردہ نسخہ ہے۔اس کی طباعت قدیم کانٹے دار ٹائپ میں ہوئی ہے۔عام طور پر اس کے صفحات پر 6 2لائنیں ہیں۔یہ مجلسِ ادب لاہور سے شائع ہوا ہے۔ اصل قصہ کل 154صفحات پر مبنی ہے،داؤدی کا مقدمہ 16 صفحے اور اخیر کے 8 صفحات اغلاط نامے کے لیے مختص ہیں؛اس طرح اس نسخے میں کل 203 صفحات ہیں۔ ایشیاٹک سوسائٹی آف بنگال (کلکتے) والے قلمی نسخے میں سرورق پر فورٹ ولیم کالج کی مہر کے ساتھ’گل بکاؤلی مسمّیٰ بہ ’مذہبِ عشق‘۔نثر بہ زبانِ ہندی۔قصّہ‘ مندرج ہے،یہ خطِ نستعلیق میں ہے، صفحات کی تعداد 103، نسخے کا حجم9 1x26ینٹی میٹ رہے،پہلے صفحہ کی سات سطروں کے علاوہ بقیہ تمام صفحات پر تیرہ سطور پائی جاتی ہیں۔

دیباچے میں فراہم کردہ اطلاع کے مطابق شیخ عزت اللہ بنگالی نے یہ قصہ اپنے معشوق نذر محمد کو کسی دن خلوت میں سنایا تھا،اس کی خواہش پر اسے فارسی میں لکھنا شروع کیالیکن 1123ہجری میں دوست کی ناگہانی موت نے بنگالی کو اس حد تک مایوس کر دیا کہ وہ اس مسودے کو چاک کرنے کے درپے ہو گیا،لیکن احباب کے منع کرنے پر ایسا نہ کیااور آدھے قصے کو فارسی میں منتقل کیا اور آدھے کو ”جوں کا توں“ رکھا۔ شیخ عزت اللہ بنگالی نے نذر محمد کو یہ قصہ زبانی سنایا، اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اس عہد کا معلوم قصہ تھا۔تحریری شکل بعد میں دی گئی تاہم اس بین حقیقت کے علی الرغم ایشیاٹک سوسائٹی والے نسخے کی فہرست میں صفحہ 134 پراس پریشان کن عبارت پرنظر پڑتی ہے:

“Gul-e-Bakawali,-A love story of Tajul Mulukand Bakawali, transted from Hindustani into Persian.ca. 1134/1722 by Izzalullah Bengali”

اسی نوعیت کی ایک دوسری عبارت(بحوالہ فہرست کتب ٹرکش،ہندوستان پشتو جلد دوم) درج کرتے ہوئے عبیدہ بیگم نے سخت تحقیقی گرفت اور جائزے سے کام لیا ہے اور اس مفروضے یا فاش غلطی کی نشان دہی کی ہے۔نہال چند کے ذریعے عزت اللہ بنگالی کے دیباچے کے ترجمے میں بھی—”بحکمِ ضرورت آدھے کو فارسی میں کیا اور آدھا جوں کا توں رکھا“ بطورِ خاص ”جوں کا توں رکھا“سے خاصی کنفیوژن کو راہ ملی اور شبہ پیدا ہوا کہ انھوں نے اوّلاً یہ قصہ کسی اور زبان میں لکھا ہوگا بعد میں اسے فارسی کا قالب عطا کیا،وہ بھی آدھے ہی قصے کو فارسی میں منتقل کیا اور پتہ نہیں آدھے کے ساتھ کیا معاملہ رہا۔تاہم اسی دیباچے سے اس غلط فہمی کا ازالہ بھی ہوتا ہے۔

قصہ گل بکاؤلی کی تکمیل کب ہوئی،قطعیت کے ساتھ اس کاعلم نہیں ہوپاتا۔ابتک عزت اللہ بنگالی کے محبوب نذرمحمد کی تاریخِ وفات کو اس قصے کی تکمیل کا سنہ قرار دیا جاتا رہا ہے۔کریم الدین، رام بابو سکسینہ نے سالِ تکمیل1124ہجری درج کیا ہے،جو لاہوری کے مطابق نذر محمد کے انتقال کا سال ہے۔باڈلین لائبریری کے فہرست ساز ایتھے کے مطابق قصے کی سنِ تصنیف 1134ھ / 1722ء بنتا ہے۔اسے ڈاکٹر گیان چند جین کی تائید و توثیق بھی حاصل ہے۔بہرکیف یہ قصہ گل کرسٹ کی فرمایش پر نہال چند نے اردو میں منتقل کیا۔لارڈ ولزی کے عہد میں یہ ترجمہ’مذہبِ عشق‘ سے موسوم ہوا۔مترجم کے مطابق لفظی ترجمہ کے بہ جائے کہیں کہیں عبارت میں حسبِ ضرورت تبدیلی کی گئی اورکہیں کہیں قلم انداز بھی کیا گیا ہے۔’مذہبِ عشق‘1217ھ/1803ء میں مکمل ہوئی۔4081ء میں یہ کتاب پہلی بار کلکتے سے منظرِ عام پر آئی۔خاتمہ الکتاب پر نہال چند کے قطعاتِ تاریخ سے بھی اس کی صراحت ہوتی ہے۔

(تاریخِ سال ہجری)

یہ قصہ ہوا جب بخومی تمام

تو پھر فکرِ تاریخ تھی صبح و شام

اچانک سنی میں نے آوازِ غیب

کہ ہے مذہبِ عشق تاریخ و نام

(تاریخِ سال عیسوی)

ہوئی جب یہ خواہش کروں اب عیاں

یہاں عیسوی سال کو بھی بیاں

تو پھر ہاتفِ غیب نے دی صدا

کہ اس مذہبِ عشق میں کوئی آ

کرے مشربِ جام گر اختیار

تو رازِ نہاں اس پہ ہو آشکار

’مذہبِ عشق‘ کا شمار اپنے عہد کی مشہور تصانیف میں ہوتا ہے۔قصے کی روح میں ہندستان کے داستانوی عہد کی خوشبو ہے تاہم گوپی چند نارنگ نے اس کے مزاج کی نشان دہی کرتے ہوئے اسے ہند ایرانی تہذیب کا زائدہ بتایا ہے۔وہ لکھتے ہیں:

”دراصل یہ ایک مخلوط قصہ ہے جس کی تشکیل قصے کہانیوں کی ملی جلی ہند ایرانی روایتوں سے ہوئی ہے۔ہندو مسلمانوں کے اختلاط سے ہندستان کی لوگ کتھاؤں یا داستانوں پر جو اثرات پڑے،یہ قصہ ان کی دلچسپ مثال ہے“۔

’مذہبِ عشق‘ ایک داستانوی قصہ ہے،جو اپنے زمانے کے مطابق انھی خصائص اور عناصر سے مملو ہے جو داستان کے تکوینی عناصر خیال کیے جاتے ہیں۔بادشاہ، شاہزادے، دیو،پریاں اور تخیلات کی استخواں بندی وغیرہ تاہم یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ لاہوری کے مذہبِ عشق کے تناظر میں ”گل بکاؤلی“ کی تاریخی اصلیت کوبھی ٹٹولنے کی کوشش کی گئی ہے۔اس کی طرف ’گلدستہئ حیرت معروف بہ تواریخ بکاؤلی‘ میں غالباً محمد یعقوب ابن اکبر خاں لکھنوی نے توجہ مبذول کی ہے۔ مطبع گلزارِ محمدی،لکھنؤ سے1293ہجری میں شایع ایک قصے کے مطابق دکن میں کرن جوت نام کا ایک راجا تھا،شاستر جوگ اور راج بھوج اس کے دو بیٹے تھے۔چھوٹے بیٹے کے گھرایک خوبصورت لڑکی پیدا ہوئی،راجکماری کو پھولوں کا بہت شوق تھا۔سوہن بھدر نامی ایک جوگی اس پر عاشق ہو گیا۔جوگی نے راجکماری کے لیے ایک ایسا درخت لانے کا وعدہ کیا جو رنگت اور خوشبو میں بے مثال ہو تاہم شرط یہ رکھی کہ راجکماری کو ساری عمرکنواری رہنا ہوگا۔جوگی کے اس درخت کا نام بکاؤلی تھا،اس رعایت سے راجکماری بکاؤلی کے نام سے معروف ہو گئی۔محمد یعقوب نے تاریخی شواہد کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ بکاؤلی کا قلعہ اور باغ کے آثار ناگپور کمشنری کی تحصیل رام گڑھ میں آج بھی امر کنٹک جنگل کے اندر موجود ہے۔

’مذہبِ عشق‘ کی ابتدا حمد وثنا، نعت اور ایک منقبت سے ہوتی ہے۔وجہ تصنیف کے بعد اصل قصہ شروع ہوتا ہے۔داؤدی کے مرتب کردہ نسخے میں پورے قصے کو چھبیس مختلف ابواب میں منقسم کیا گیا ہے۔ہر باب میں مذکور قصے کی رعایت سے عناوین قائم کیے گئے ہیں۔ مذہبِ عشق میں مندرج تاج الملوک اور گل بکاؤلی کے عشقیہ داستان کی تفصیل میں جانے کی چنداں ضرورت نہیں تاہم اس میں مستعمل زبان و اسلوب اور اندازِ پیش کش، داستانوی عناصر، قصہ پن،کردار، دلچسپی، تمثیل اور علامات سے کام لینے کی لاہوری کے ادبی حربوں کی تفہیم کے لیے مذہبِ عشق کے چند اقتباسات پر غور وخوض دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔

بکاؤلی کے حسن کا بیان ملاحظہ ہو:

”اس کے رنگ روپ کی جوت سے زمین وآسمان نورانی اور اس کی چشمِ مست سے نرگس کو ہمیشہ حیرانی۔لبِ نازک کے رشک سے لالہ خون میں غلطاں، ابرو کی چاہ سے ہلال زار و ناتواں ہے۔معلم بہار اس کے غنچہئ دہن سے کوئی حرف نہ سنے تو اطفال شگوفہ کو پھولنے کا سبق نہ دے سکے۔اگر زنگیِ شب اس کی زلفِ مشکیں کے سائے میں نہ آئے تو آفتاب کی تیغِ شعاع سے مارا جائے“

اب اس مرصع اور سجی دھجی عبارت کے بعد سادگی سے مملو ایک دوسری عبارت دیکھیے:

”چاروں طرف سے لڑکوں نے آکر گھیرا کہ باباہمارے واسطے کیا لایا ہے۔ شاہزادہ چپکا ایک ایک کا منہ تکنے لگا۔اتنے میں اس چڑیل نے ایک کلہاڑی لا، تاج الملوک کے ہاتھ میں دی کہ جا لکڑیاں کاٹ لا،شاہزادہ اس فرصت کو غنیمت سمجھا۔جنگل میں گیا لیکن اس طلسماتِ عجیب کے حالات سے حیران تھا“

فارسی سے ترجمہ ہونے کے سبب’مذہبِ عشق‘میں قائم کردہ عناوین فارسی انداز اور طرز پر رکھے گئے ہیں۔زبان کی سطح پر سادگی اور سلاست نظر نہیں آتی۔حسنِ صورت کا بیان ہو کہ عیش طرب کا، سادگی سے عاری ہیں۔ عبارت فارسی کے سحر سے کلیتہً آزاد نہیں،تاہم بناؤ سنگار والی نثر کے بیچ جگہ جگہ سادگی اور عام بول چال سے قریب زبان توانائی کے ساتھ نظرآتی ہے،جو یقیناً فورٹ ولیم کالج کا مطلوب و مقصود تھا۔مذہب عشق میں نسائی کردار کی کمی نہیں لیکن نسوانی زبان و محاورے کی قلت ہے۔فارسی اثرات اور اسلوب کے مابین ہندی کے نرم اور شیریں الفاظ کاالبرق فی الدجیٰ کا درجہ رکھتے ہیں اور بھلے محسوس ہوتے ہیں۔معاشرتی مرقعوں پر نظر پڑتی ہے، تمثیلی اندازِ بیان،پند و نصائح اور قرآن وحدیث کے حوالوں سے قصے کے تسلسل اور روانی میں کمی کا احساس گزرتا ہے۔کردار نگاری کی سطح پر محض دو نمائندے کرداروں ’تاج الملوک اور گل بکاؤلی کی اجارہ داری نظر آتی ہے۔معاون کرداروں کی لَو مدھم ہے تو کہیں اور مدھم جبکہ عام داستانوں کی طرح مرکزی کرداروں کا عشقیہ کمٹمنٹ دیدنی ہے۔داستان میں طلسمات اور فوق فطری عناصر کے بیان میں تخیلات کی مدد سے تراشے گئے چھوٹے بڑے معاون اشیا،حوض، درخت، ہیرے جواہرات،حشرات الارض جیسے سانپ،کشف و کرامات سے مملو انجانی محافظ قوتیں،روح فرسا دیو کے ذکر سے داستانوی ماحول سازی میں مدد لی گئی ہے۔یہ سبھی پہلو عمدہ ہیں —ہندستانی عناصر کی افزودگی سے داستان پر ہندستانی فضا یا ہندوستانیت کی گہری چھاپ ہے۔مندر،سرسوں کا تیل، رسوم و رواج اور نشست و برخاست کے اظہار میں ہندستانیت کے واضح اثرات دیکھے جا سکتے ہیں البتہ بعض مقامات اور اسما کے بیان میں ہند ایرانی روایات کو ملحوظ رکھا گیا ہے جیسے شہر شرقستان،فردوس، رضوان شاہ وغیرہ۔

’مذہبِ عشق‘ کے متعدد ایڈیشنوں کی اشاعت سے اس کی مقبولیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ سرابراہم گرسن نے لنگوئسٹک سروے آف انڈیا میں اس کے مختلف ایڈیشنوں کی طویل تفصیل دی ہے۔اس کی معنویت کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ اسے آر پی انڈرسن نے انگریزی میں ترجمہ کیا،جو 1851ء میں دہلی سے شایع ہوا۔اس سے قبل ٹی بی مینول نے بھی اس کا انگریزی میں ترجمہ کیا تھا جسے گارساں دتاسی نے1858ء میں پیرس سے شایع کیا۔ اس کی اہمیت اس سے بھی واضح ہوتی ہے کہ 9/ستمبر1803ء میں کالج کونسل سے گل کرسٹ نے فورٹ ولیم کالج کے غیر ملازم مصنفین کی کتب پر انعام کی جو سفارش کی تھی،اس میں قصہ گل بکاؤلی(مذہبِ عشق) پر 051روپے انعام کی تجویز پیش کی گئی تھے۔

فورٹ ولیم میں اردو نثر کے بیک وقت تین روپ—فارسی اور عربی مزاج،دوسرا خالص ہندی مزاج اور تیسرا ہندی، عربی،فارسی،مقامی زبانوں اور روز مرہ کے امتزاج سے مرتب کردہ نثر کو متحرک رکھنے کی کوشش۔مذہبِ عشق کو فورٹ ولیم کالج کے ’باغ و بہار‘ جیسا کامیاب بلکہ فائزالمرام نثر کی حیثیت سے تو نہیں دیکھا جا سکتا تاہم عوامی دلچسپی کے قصے اور کہانیوں کی راہ سے برطانوی اقتدار کی توسیع پسندانہ آڈیالوجی اوراس کے منشاکو بڑی حد تک پورا کرنے والی نثر کی حیثیت سے اسے ضروردیکھا جا سکتا ہے۔کولونیل مقاصد کے تحت فورٹ ولیم کالج میں ابھرنے والی اردو نثر نے فارسی کی حاکمیت (Establishment) اور رائج ثقافتی محور پر اصرار کرنے والے رویے سے ذہنی اور فکری انحراف کی راہ پیدا کی تو نہال چند لاہوری کے ’مذہبِ عشق‘ کو اس قافلے میں شامل ایک تواناآواز کی حیثیت سے ضرور یاد کیا جائے گا۔ [1]

  1. اردو نثر کے دو سنگِ میل:نہال چند لاہوری اور مذہبِ عشق؛بین السطوری مکالمہ، تحریر امتیاز وحید، شعبۂ اردو، کلکتہ یونیورسٹی، https://www.worldurduassociation.com/2019/08/02/%D8%A7%D8%B1%D8%AF%D9%88-%D9%86%D8%AB%D8%B1-%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D9%88-%D8%B3%D9%86%DA%AF%D9%90-%D9%85%DB%8C%D9%84%D9%86%DB%81%D8%A7%D9%84-%DA%86%D9%86%D8%AF-%D9%84%D8%A7%DB%81%D9%88%D8%B1%DB%8C/ آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ worldurduassociation.com (Error: unknown archive URL)