اس رجحان ساز ادبی مجلے نے جولائی 1924ء میں لاہور سے علم کی روشنی پھیلانے کے سفر کا آغاز کیا۔ پس نو آبادیاتی دور میں بھی ’’ نیرنگ خیال‘‘ کی اشاعت کا سلسلہ جاری رہا۔ ان دنوں ماہ نامہ ’’ نیرنگ خیال‘‘ نامور ادیب سلطان رشک کی ادارت میں راول پنڈی سے شائع ہو رہا ہے۔ اس ادبی مجلے نے ہر دور میں حریت فکر کا علم بلند رکھا ہے اور قارئین کو ہوائے جو رو ستم کے مسموم ماحول میں بھی حریت ضمیر سے جینے کی راہ دکھائی ہے۔ نو آبادیاتی دور میں سامراجی طاقتوں کے جو رو ستم کے بارے میں حقیقی شعور و آ گہی پروان چڑھانے میں اس مجلے نے تاریخی کردار ادا کیا۔ آزادی کے بعد اس مجلے نے پس نو آبادیاتی فکر، مشرقی تہذیب و ثقافت، آزادیِ اظہار اور سلطانی ٔ جمہور کے لیے مقدور بھر جد و جہد کی۔ نیرنگ خیال کے قارئین اس حقیقت سے آ گاہ ہیں کہ بادی النظر میں تو نو آبادیاتی دور اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے مگر یورپ کی استعماری طاقتوں نے اپنی سابقہ نو آبادیات میں سازشوں کا جال بچھا رکھا ہے اور اس خطے کے عوام کی زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر کر دی گئی ہیں ۔ اس مجلے کے مشمولات بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں فکر و خیال کے متعدد نئے دریچے وا کرتے ہیں ۔ ان دنوں حکیم محمد یوسف حسن کی یاد میں شائع ہونے والے اس تاریخی ادبی مجلے کے سر پرست حسین طارق ہیں ۔ افکارِ تازہ کی مشعل تھامے سفاک ظلمتوں کو کافور کرتے ہوئے جہانِ تازہ کی جانب سرگرمِ سفر رہنے والے اس مجلے نے گذشتہ ترانوے(93) برس میں قارئین میں مثبت شعور و آ گہی پروان چڑھانے کی جو مساعی کی ہیں وہ تاریخ کے اوراق میں آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں ۔ حال ہی میں ’’نیرنگ خیال ‘‘کا شمارہ 2، جلد 93 بابت ماہ فروری 2017شائع ہوا ہے۔ اس شمارے کے مشمولات بھی حسب معمول مجلس ادارت کے ذوق سلیم اور حسن انتخاب کی عمدہ مثال ہیں ۔ چونسٹھ صفحات پر مشتمل اس مجلے میں سات مضامین، تین افسانے، آٹھ شعرا کا کلام اور قارئین کے مکاتیب شامل ہیں ۔ مضمون نگاروں میں جیلانی کامران (1926_2003)، ڈاکٹر غلام شبیر رانا، خورشید بیگ میلسوی، عرفان جاوید، فاروق بلوچ، عماد قاصر اور ڈاکٹر سکندر حیات میکن شامل ہیں ۔ تمام مضمون نگاروں نے اپنے اپنے موضوعات پر خوب دادِ تحقیق دی ہے۔ نثری نظم کی تکنیک کے حوالے سے پروفیسر جیلانی کامران کا مضمون چشم کشا حقائق کا امین ہے۔ فکشن کے حصے میں نجیب عمر، غلام ابن سلطان( ڈاکٹر غلام شبیر رانا کا قلمی نام) اور منیزہ شمیم کی تحریروں کا کرشمہ دامنِ دِل کھینچتا ہے۔ شاعری کے حصے میں سید ضمیر جعفری، جان کاشمیری، غالب عرفان، عشرت رومانی، مرزا عاصی اختر، انجم جاوید، جاوید صدیق بھٹی اور سلطان رشک کا کلام شامل ہے۔ آخر میں گذشتہ شمارے میں شامل تحریروں کے بارے میں آصف ثاقب (ایبٹ آباد )اور غالب عرفان کے مکاتیب بہت اہم ہیں ۔

مجموعی اعتبار سے ’’نیرنگ خیال ‘‘ کا یہ شمارہ قابل مطالعہ مواد سے لبریز ہے۔ مجلس ادارت کی محنت، لگن، فرض شناسی اور مستعدی لائق صد رشک و تحسین ہے۔ اسی جذبے نے اس مجلے کو ایک مستحکم روایت کی صورت عطا کی ہے۔ مجھے یقین ہے علم و ادب کا یہ زمزم سدا رواں دواں رہے گا اور اس کی جو لانیوں سے کِشتِ جاں سیراب ہوتی رہے گی۔

اس کے ابتدائی لکھنے والوں میں علامہ اقبال، سر عبد القادر، آغا حشر کاشمیری، نیاز فتح پوری، پریم چند، امتیاز علی تاج، محمود شیرانی، یگانہ چنگیزی، قاضی عبد الغفار، سیماب اکبر آبادی، ریاض خیر آبادی، اختر شیرانی اور اس دور کے اور کتنے ہی اہم لکھنے والے شامل تھے۔ ”نیرنگ خیال“ کے سالناموں کے ساتھ اس زمانے میں اس کے کئی اہم خصوصی نمبرز نکالے گئے۔ ان نمبرز میں سب سے اہم ترین ”اقبال نمبر“ ہے جو آج بھی حوالے کی مستند دستاویز ہے۔ 1967ءمیں حکیم محمد یوسف حسن اس رسالے کے مدیر اعلیٰ بن گئے اور سلطان رشک اس کے مدیر مقرر ہوئے۔ حکیم صاحب کی وفات کے بعد بھی سلطان رشک اس رسالہ کے مدیر ہیں۔ اکتوبر 1999ءکا شمارہ ”نیرنگ خیال“ کا ماہیا نمبر ہے۔ اس سے پہلے پاکستان سے پنجابی اخبار ”بھنگڑا“ گوجرانوالہ کا اردو ماہیا ایڈیشن اور دو ماہی ”گلبن“ احمد آباد کا ماہیا نمبر شائع ہو چکے ہیں۔ ”نیرنگ خیال“ کے اس ماہیا نمبر کی یہ تاریخی حیثیت بنتی ہے کہ یہ پاکستان سے کسی ادبی رسالے کا پہلا ماہیا نمبر ہے۔ سلطان رشک نے اس نمبر کے لیے خاص طور پر معروف شاعر احمد حسین مجاہد اور نوجوان ادیب محمد وسیم انجم کو بطور مرتبین شامل کیا

حوالہ جات

ترمیم