تھال قدیم جرمن زبان میں وادی کو کہتے ہیں، اس کلمہ کا موجودہ تلفظ تال ہے۔ نی اینڈر ایک وادی کا نام ہے جو جرمنی میں دسل وارف کے قریب واقع ہے۔ یہاں سب سے پہلے اس انسان کے چودہ مجحرات دریافت ہوئے۔ بعد میں دوسرے ممالک سے بھی اس کے اعضائ ملے اور اس خاص آدمی کا نام نی اینڈر آدمی رکھ دیا گیا ۔

یہ انسان آخری برف کے زمانے سے ذرا ہی پہلے نمودار ہوا اس کا زمانہ ایک لاکھ سال قبل سے لے کر 35 ہزار سال قبل تک ثابت ہوتا ہے۔ اس کا ارتکاز یورپ میں اور بحیرہ روم کے ارد گرد کے علاقوں میں تھا۔ تقریباً پچتھر ہزار پہلے یہ لوگ یورپ پر چھا گئے تھے۔ ان کی کھوپڑیاں جبڑے اور دانت چیکو سلوکیہ، جرمنی فرانس اور اٹلی سے ملے ہیں۔ جو پچتھر ہزار سال پرانے ہیں۔ انھوں نے نئی اوزاری صنعت کو جنم دیا، جسے ماؤ سیٹرین اوزاری صنعت کا نام دیا گیا ہے ۔

یہ غاروں میں رہنے والے لوگ تھے۔ تاہم یہ کھلی جگہوں پر جھگیاں بنا کر رہنے کے بھی کچھ ثبوت بھی ملے ہٰیں۔ ان کا قد چھوٹا، بدن مظبوط اور گھٹا ہوا، خانہ مغز لمبا، نیچا اور چوڑا تھا اور پیچھے کی سے چپٹا تھا۔ پیشانی کا نچلا کنارہ بھاری بھرکم تھا۔ دانت بڑے تھے اور رخسار کی ہڈیاں چھوٹی تھیں۔ ان کے ہاتھ اور پاؤں بڑے بڑے تھے۔ مگر ان کی انگلیاں چھوٹی چھوٹی تھیں۔ یہ پوری طرح کھڑے ہو کر چلتے تھے ۔

ان کے غاروں کے منہ چھوٹے ہوتے تھے۔ آگ استعمال کرتے تھے، ان کی خوراک کافی متنوع تھی۔ پھل، سبزیاں، گوشت سب کچھ کھاتے تھے۔ جانوروں میں سے سبزی خور اور گوشت خور دونوں قسم کے جانورؤں کا شکار کرتے تھے ۔

نی اینڈر تھال آدمی غاروں میں رہنے والے ریچھ کا شکار کیا کرتے تھے۔ حیرت کی بات ہے کمزور اور آسان جانور کو چھوڑ کر اس قوی ہیکل جانوروں کو مارنے کی ضرورت کیا تھی؟ اور کس طرح اس کو مار گراتا ہوگا۔ ریچھ اگر دو پاؤں پر کھڑا ہو جائے تو آٹھ فٹ کا دیو ہیکل درندہ ہے۔ نی اینڈر تھال باقیدگی سے اس کا شکار کرتا تھا۔ سوئز لینڈ کے شہر وریخن لوچ میں پتھر کے ایک طاقچے میں ترتیب دار سجی ہوئی ریچھ کی پانچ کھوپڑیاں ملی ہیں۔ اسی شہر میں ایک جگہ سے تین سالہ ریچھ کی کھوپڑی اس میں رخسار کے آر پار گھسائی ہوئی ایک ننھے ریچھ کی ٹانگ ہے۔ یہ چیز ۔۔ یہ ٹانگ گھسی کھوپڑی ۔۔ دو ہڈیوں کے اوپر برائے جمان ہے اور یہ دو ہڈیاں دوسرے ریچھوں کی ہیں۔ یہ ترتیب اتفاقی نہیں بلکہ شعوری ہے ۔

کوہ کار مل واقع فلسطین 1932 میں اس ترقی یافتہ نی اینڈر تھال کی عورت کا ایک ڈھانچہ ملا ہے۔ اس کی ابروؤں کی ہڈی کا ابھار کم، موٹا پا کم اور کھوپڑی گول ہے۔ اس پتھرائی ہوئی عورت کا نام تابون عورت نام رکھا گیا۔ کیوں جس جگہ سے یہ لاشہ ملا اس کا نام تابون تھا۔ اس طرح کوہ کارمل کے پاس سخول کے قبرستان میں سے چودہ لاشیں متجحر ملی ہیں۔ ان میں سے دس افراد ایک دوسرے سے متنوع تھے۔ یہ سب افراد دفن کیے گئے تھے۔ فلسطین میں ہی جبل قفضیٰ کے غار میں پندرہ لاشیں مدفون ملی ہیں۔ یہ بھی قبرستان معلوم ہوتا ہے ۔

1957 میں شمالی عراق میں شنندر کے مقام سے ایک شکاری آدمی کا ڈھانچہ ملا ہے۔ یہ 4400 ہزار سال پرانا انسان تھا۔ یہ سخص چٹان سے دب کر مرا ہے۔ اس کی عمر چالیس سال ہے اور اس کے دانت خراب ہو چکے تھے۔ اس کا قد پانچ فٹ تین انچ تھا۔ چھاتی گول تھی جیسا کہ مغربی یورپ میں اس کے ہم نسلوں میں تھا۔ مگر ابروؤں کا ابھار کم تھا۔ جس کی وجہ سے اس کی شباہت جدید تر تھی ۔

دنیا پھر میں یورپ، ایشیا، یورپ اور افریقہ جہاں بھی ان کے ڈھانچے ملے ہیں ان کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے اختلاف انفرادی یا صنفی ہیں اور بحثیت نوع اور نسل کے یہ سبھی چیز ہیں۔ ان کا نسلیاتی ذخیرہ ایک ہی ہے ۔

اس گروہ کے ترقی یافتہ افراد نے موجودہ انسانی کو جنم دیا۔ لیکن فرداً فرداً نہیں بلکہ پورے عہد پر پھیلے پویئ عرصے میں جیسے ایک گروہ دوسرے گروہ کو جنم دے رہا ہو۔ یہ جنم یورپ اور افریقہ میں ہر گز نہیں ہوا۔ یہ یا تو مشرقی وسطیٰ میں ہوا ہے یا پھر ایشیائ میں۔ اساطیری روایات اور قدیم مذاہب کی تلمیحات بھی اس کی تائید کرتی ہیں ۔

نی اینڈر تھال آدمی نہ صرف آگ کے استعمال سے واقف تھا، بلکہ آگ بھی پیدا کر سکتا تھا اور اسے کسی ڈسپلن کے تحت رکھ سکتا تھا۔ اپنے غاروں کے فرش پر آتش دان کھودنے کے قابل ہو چکا تھا۔ گھر بھی بنا کر رہتا تھا اور غاروں میں بھی ۔

روس میں کئی ایسے مقامات ملے ہیں جہاں نی اینڈر تھال کے گھروں میں فرشی آتش دان ملے ہیں۔ ایک جگہ پر ایک دائرے میں فرشی چولھے ملے ہیں اور ان کے ارد گرد ہاتھی کی ہڈیاں اور اس کے دیکھانے کے دانت ہیں ۔

نی اینڈر تھال کی سب سے اعلیٰ صفت یہ ہے کہ وہ سماجی شعور رکھتا تھا۔ یعنی انسانیت سے پیار کرتا تھا۔ اپنی ذات سے باہر دوسرے انسان کے لیے پیار اور احترام کے جذبات رکھتا تھا۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت وہ قریں جن میں مرجانے والے ساتھیوں کو دفن کرتا تھا۔ شاید وہ موت کو عارضی شے سمجھتا ہو یا وہ شاید یہ سمجھتا ہو کہ گہری نیند سوئے اس کے ہم جنس کھلی زمین پر بے یار و مدد گار نہیں چھوڑے جا سکتے ہیں۔ جہاں وشی درندے ان کی بے حرمتی کریں اور انھیں پھاڑ کھائیں ۔

فرانس میں لومئوسیتئے LA MOUSTIER کے مقام پر ایک اٹھارہ سالہ لڑکے کی قبر ملی ہے۔ اس کی ٹانگیں پیچھے کو مڑی ہوئی ہیں۔ سر کے نیچے پتھروں اور ہڈیوں کا تکیہ ہے۔ اس پر وہ اپنا بازو رکھے، بازو پر سر رکھے گویا سو رہا ہے ۔

لافراسی LA FERRASIE کے مقام پر ایک کنبے کی قبر ملی ہے۔ جس میں دو جوان اور چار بچے سونے کی پوزیشن میں مدفون ہیں۔ نی اینڈر تھال آدمی کے ساتھ اوزار اور کھانا بھی ہے۔ سونے کی پوزیشن میں لٹانے کا مطلب کہ موت صرف ایک گہری نیند ہے اور کل وہ جب اٹھیں گے تو انھیں اوزاروں کی اور کھانے کی ضرورت پیش آئے گی ۔

یہ اس قدیم انسان کی عقلی کاوش ہے۔ جسے وہ جس میں وہ زندگی اور موت کی جدلیات کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ قبروں میں اوزاروں اور کھانے سے ماہرین نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ وہ انسان کسی قسم کے مذہب پر یقین رکھتا تھا اور حیات بعد املمات کا قائل تھا۔ بہر صورت یہ اس کی موت کے خلاف جنگ اور فنا کے خلاف بقائ کی کشمکش تھی۔ وہ زندہ رہنا چاہتا تھا اور موت کا حاصل ہونے کے بعد اس سے مغلوب ہونے سے انکار کر رہا تھا۔ کم از کم یہ تو یقینی ہے کہ اس نے موت کی ماہیت پر غور کیا تھا اور اسے عاضی چیز سمجھتا تھا اور اس نے اس پر قابو پانے کی کوشش کی تھی۔ ہڈیوں کی مخصوص ترتیبیں، خاص نقش و نگار، دفنانے کا عمل اور دوسری چیزیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ وہ جادو کا قائل تھا، مذہب کا نہیں۔ مذہب کا مقصد معبود کو راضی کرنا اور اپنی اطاعت سپردگی اور بندگی کو ظاہر کرنا ہے۔ جب کہ جادو کا مقصد تخسیر فطرت ہے ۔

اس انسان کے ہاں قدرتی رنگ بھی ملے ہیں اور ان کا استعمال بھی نظر آیا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ وہ سجاوٹ کا شعور رکھتا تھا۔ کم از کم اتنی ثقافتی ترقی اس نے ضرور کی تھی کہ اپنی زندگی میں اپنی کوششوں سے کچھ حسن تخلیق کرنے کی شد و بد پاچکا تھا ۔

اس دور کی اپنی ایک سائنس بھی تھی۔ اس کے دو بڑے شعبے تھے۔ اوزاروں کی مدد سے اوزار بنانے کا کام طبیعیات کی سائنس کی بنیاد تھا .۔ یہ وہ شروعات تھی جس نے آگے چل کر طبیعیات کی ترقی کے لیے راستہ کھولنا تھا۔ یہ فزکس کی ابتدا تھی۔ دوسرا شعبہ آگ پر قابو پانے کے باعث وجود میں آیا۔ جس طرح اوزار سازی طبیعیات کی بنیاد بنی اس طرح آگ کیمیا کی بنیاد بنی۔ بذات خود آگ لکڑیوں کو جلانے کا کیمیائی عمل ہے۔ اس انسان نے اس پر گوشت بھونے کا طریقہ سیکھا۔ یہ بھی کیمسٹری کی ابتدائی کارروائی تھی۔ بعد میں انسان نے پتھر اور مٹی کے پیالے بنانے سیکھے تو پانی اور گوشت ابالنے کا عمل شروع ہوا۔ یہی بھونا، ابالنا اور رنگوں کا استعمال کیمیا کے ضمن آتا ہے ۔

ماخذ

یحیٰی امجد۔ تاریخ پاکستان قدیم دور