وادی سندھ میں آرائش و زیبایش

منکے

ترمیم

وادی سندھ میں منکے اور ہیت میں کثیر النوع ہیں۔ سونے، چاندی، تانبے کانسی، روغنی مٹی، صابن پتھر، قیمتی اور نیم قیمتی پتھروں اور گھونگے سیپی اور مٹی سب چیزوں سے منکے بنائے جاتے تھے۔ سب سے زیادہ منکے پتھر کے بنے ہوئے ملے۔ ٹھوس پتھر سے تراشنے کے علاوہ صابن پتھر کو پیس کر اس کے سفوف کو پانی میں گوند کر بھی بنائے جاتے تھے۔ منکوں کو بنانے کے طریقے بھی بہت سے تھے۔ چیرنے، تراشنے، رگڑنے،، چھیدنے، برمانے اور کاٹنے کے سب طریقے برتے جاتے تھے۔ پتھر کو پہلے چیر کر لمبی لمبی سلاخیں بنالیں جاتی تھیں۔ پھر ان کو کاٹ کر ٹکڑے کیے جاتے تھے۔ پھر ان کو اندر سے برمایا جاتا تھا اور باہر سے رگڑا جاتا تھا۔ برما پتھر کا ہوتا تھا اور برمانے میں پانی بھی استعمال ہوتا تھا۔ سونے، چاندی اور قیمتی پتھر کے منکے سے تو بیگمات کے زیورات بنتے ہوں گے۔ لیکن مٹی کے منکے جوگیوں کا پہناوا رہے ہوں گے۔ کچھ منکے نقلی سونے بھی ملے ہیں۔ جن میں تانبے کے منکوں پر سونے کا پانی چڑھایا گیا ہے۔ بعض منکے قتلے دار بھی ملے ہیں۔ بعد کے زمانے میں ڈھولک نما بھی ہو گئے۔ یعنی لمبوترے منکے جو گول ہیں اور ان کے درمیان ابھار ہے۔ ان پر تین پتیوں دار پھول بھی بنا ہے۔ بعض منکوں پر سرخ اور سیاہ رنگ بھی کیا ہوا ہے۔ ان کو الکلی، تیزاب اور دوسرے کیمیاوی مادوں سے رنگا جاتا تھا ۔

چنھودڑو میں ایک منکہ ساز کی ورکشاب ملی ہے۔ جہاں موجود چیزوں سے منکے بنانے کی تیکنک پر روشنی پڑھتی ہے۔ یہ منکا ساز سرخ عقیق اور سنگ سلیمان سے لمبے منکے بناتا تھا۔ پہلے وہ تانبے کی آری سے پتھر کی تین انچ چوکور سلاخیں کاٹتا تھا۔ پھر وو اس کے چاروں کونے رگڑائی سے ختم کر کے اسے گولائی میں ڈھالتا تھا۔ گول سلاخ کے اندر پتھر کے باریک برمے سے سوراخ کرتا تھا۔ پھر اس سلاخ کو دوحصوں میں کاٹ کر ڈیڑھ ڈیڑھ انچ لمبے منکے بناتا تھا۔ جو نالی کی شکل کے ہوتے تھے۔ ان کی موٹائی 21ئ0 1نچ ہوتی تھی۔ اس تیکنک کو عملی طور پر برت کر ماہرین آثار قدیمہ نے پرکھا تو پتہ چلا کہ ایک منکے کے آر پار سوراخ کرنے میں چوبیس گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ طبقہ شرفائ کی بیگمات کو منکے پہنانے کے لیے ملک میں کتنی بڑی تعداد میں منکہ ساز مصروف کار رہتی تھی۔ منکوں کے علاوہ کانوں کی بالیاں اور ناک کے لونگ بھی بنتے ہوں گے۔ تانبے کے آئینہ ہوتے تھے جن کو پکڑنے کا دستہ ہوتا تھا۔ آنکھوں میں سرمہ لگایا جاتا تھا۔ سرمہ دانی، سرمہ لگانے کی سلائی اور سرمہ دانی میسر تھا۔ تانبے کے استرے سے ہی بال مونڈے جاتے تھے ۔

زیورات

ترمیم
مٹی کی چوڑیاں، گنگن، انگوٹھی اور بٹن وغیرہ ہیں۔ جن پر روغن چڑھایا گیا ہے۔ ان کے علاوہ بازو بند، کھیل کے مہرے اور ننھی منی بے شمار چیزیں بنائی جاتی تھیں۔ بعض جگہ سے نہایت تنگ منہ والی چھوٹی سرمہ دانیاں بھی ملیں ہیں۔ کانسی اور تانبے سرمچو بھی ملے ہیں۔ جو ساڑھے چار انچ سے پانچ انچ تک لمبے ہیں۔ تانبے کے پیالے، پیالیاں اور تھالیاں عام تھیں۔ لیکن یہ امرائ کی چیز تھی عوام کی نہیں۔ امیر عورتیں بکثرت زیور استعمال کرتی تھیں۔ جس میں سونے، چاندی اور نیم قیمتی پتھروں سے بنے ہار، گلوبند اور بازوں بند شامل تھے۔ ان کے علاوہ سونے کے تعویز جن میں سفید لئی جڑ کر پھول بنائے جاتے تھے۔ سادہ سونے کے کنگن اور بازو بند ہوتے تھے۔ جن پر سونے کا کام ہوتا تھا۔ گول منکے اور سفید مخروطی جو کانوں میں پہنے جاتے تھے۔ طرح طرح کے گلوبند اور ہاروں کے علاوہ کمر بند ہوتے تھے۔ کمر بند لباس کے اوپر باندھا جاتا تھا۔ قیمتی پتھروں میں سنگ یشب کا استعمال عام تھا۔ لاجور بھی کسی قدر استعمال ہوتا تھا۔ سرخ عقیق سے منکے بنائے جاتے تھے۔ جن پر باریک نقش کھود کر ان میں سفید رنگ بھرا جاتا تھا۔ یوں تو سرخ منکے پر سفید پھول بنائے جاتے تھے ۔


وضع قطع اور لباس

ترمیم

یہاں جو مورتیں ملی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ مرد چھوٹی ڈاریاں رکھتے تھے۔ موچھیں کوئی منڈا تھا کوئی نہیں۔ کوئی پٹے رکھتا تھا، کوئی پٹے رکھتا، کوئی بال بڑھاتا اور پیچھے جوڑا باندھ لیتا تھا۔ بالوں کو روکنے کے لیے سر پر پٹیاں باندھی جاتی تھیں۔ جو معمولاً کپڑے کی ہوتی ہوں گی۔ مگر ایسی پٹیاں بھی ملی ہیں جو جو سونے کی پٹیوں سے بنی ہوتی تھیں۔ مردوں کا عام لباس ایک چادر تھی۔ جو کمر سے لیپٹی جاتی تھی اور دائیں بغل کے نیچے سے لاکر بائیں کندھے پر ڈال لی جاتی تھی۔ اس چادر کے نیچے کوئی کرتا یا بنڈی پہنی جاتی تھی یا نہیں، اس کا پتہ نہیں چل سکا ۔

عورتوں کے لباس کے متعلق کوئی اندازہ نہیں کیا جاسکا۔ وہ بال یا تو کھلے رکھتی تھیں یا پیچھے ڈھیلا سا جوڑا باندھ لیتی تھیں یا اسی طرح سے گوندھتی تھیں کہ ایک اونچی نکیلی ٹوپی یا ہلال یا عمامے کی شکل نکل آتی۔ عورتیں مختصر دھوتی یا تہمد باندھتی تھیں۔ امیر عورتیں اس کے اوپر کمر بند باندھتی تھیں۔ جو چوڑی پٹی کا ہوتا تھا ۔

ماخذ

یحیٰی امجد۔ تاریخ پاکستان قدیم دور

ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم