وادی سندھ میں تانبے اورکانسی کی مصنوعات اور برتن
تانبے اورکانسی کی مصنوعات
ترمیمدھات کی جو چیزیں کھدائی میں ملی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں کاریگری کے اوزار میں اور جنگی ہتھیاروں میں کانسی اور تانبے استعمال کیا جاتا تھا۔ سماج کے بنیادی صنعتی اوزار اور جنگی ہتھیار انہی دھاتوں پر مشمل تھے۔ مگر ان کی حثیت ثانوی تھی۔ لہذا وادی سندھ کی تہذیب کانسی کی تہذیب تھی اور یہ زمانہ کانسی کا زمانہ تھا۔ اس تہذیب کے ابتدائی زمانے میں دھاتوں کو پگھلا کر اوزار بنانے کا طریقہ مروج ہو چکا تھا۔ دھات پگھلانے کا فن دریافت ہونے سے پہلے قدرتی دریافت شدہ تانبے کو کوٹ کر پیٹ کر چیزیں بنانے کا طریقہ رائج تھا۔ ان اوزاروں میں جو تانبا استعمال ہوا ہے، اس میں نکل برائے نام ہے۔ 0.5 فیصد یا زیادہ سے زیادہ ایک فیصد۔ لیکن اس کے مقابلے میں سنکھیا بہت زیادہ ہے۔ سنکھیا کی زیادتی اس بات کا ثبوت ہے کہ تانبہ مقامی کانوں سے نکالا جاتا تھا۔ کیوں کہ میسوپوٹیمیا اور مغربی ایشیائ کے ملکوں میں یہ زہر مفقود ہے یا نہ ہونے کے برابر ۔
تانبے میں اگر دس فیصد کے قریب قلعی ( ٹن ) ملادی جائے تو وہ کانسی بن جاتا ہے۔ کانسی تانبے سے کہیں زیادہ سخت دھات ہے۔ ایک عجیب حسن اتفاق ہے کہ دنیا میں کئی جگہ زیر زمین تانبہ اور قلعی کے ذخائر پاس پاس پائے جاتے ہیں۔ لہذا کئی جگہ اتفاقیہ آپس میں گھل مل نے سے بھی قدرتی کانسی بن جاتی ہو یا اس کو پگھلا کر ڈھالنے کے ابتدائی طور پر کانسی بن گئی ہو۔ بہر حال وادی سندھ کی تہذیب اپنے پختہ دور کے آغاز سے ہی کانسی کے اوزاروں سے مالا مال ہے۔ ان لوگوں کا دھات سازی کا فن کافی ترقی یافتہ تھا اور وہ پگھلا کر ڈھالنے، ملائے جانے اور کوٹ پیٹ کر ڈھالنے کے فن سے واقف تھے۔ اگر سادہ تانبے کو پگھلا کر کسی سانچے ) ریت یا مٹی کے بنے سانچے ( ڈالا جائے تو اس کے اندر بلبلے رہ جاتے ہیں۔ ان بلبلوں کو ختم کرنے کے لیے وہ لوگ سنکھیا یا قلعی یا دونوں کی تھوڑی مقدار ملاتے تھے۔ اس پگھلی ہوئی دھات کو موم کی مدد سے بنائے گئے مٹی کے سانچوں میں ڈالتے تھے۔ یہی وجہ ہے ان میں غضب کی صحت اور اعلیٰ معیار کی صفائی ہوتی تھی۔ موہنجودڑو کی رقاصہ اس ٹیکنالوجی کا شہکار ہے اور بھی بہت سی چیزیں اسی تیکنک سے بنائی جاتی تھیں ۔
تانبے اور کانسی کے جو اوزار ملے ہیں ان میں سیدھی اور چپٹی کلہاڑیاں، چھنیاں، چاقو، چھریاں، استرے، برچھے، بھالے اور مچھلی پکڑنے کے کانٹے بنائے جاتے تھے۔ کلہاڑیوں میں لکڑی لگانے کا سوراخ نہیں ہوتا تھا۔ حلانکہ لکڑی کے ڈنڈے کے لیے سوراخ والی کلہاڑیوں کا رواج میسوپوٹیمیا اور سومیر میں عام تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ مقامی تیکنک تھی جو قدیم زمانے سے چلی آ رہی تھی ۔
دھات کے جو برتن ملے ہیں ان میں اکثر تو تانبے کے بنے ہوئے ہیں۔ البتہ کہیں کہیں چاندی کے برتن بھی ملے ہیں۔ ان میں ڈونگے پیالے اور گلدان شامل ہیں۔ یہ انتہائی امیر یا حکمران خاندان کے استعمال میں رہتے ہوں گے ۔
یہی سب برتن مٹی کے بنے ہوئے ملے ہیں۔ گویا سماج انتہائی امیر اور انتہائی غریب طبقات میں بٹا ہوا تھا۔ برتنوں کی بناوت میں اور حسن اور نفاست کی کمی، جمالیاتی سطح کی پستی اور اسالیب کی یکسانی نمایاں ہے۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ سماج کہ یہ صورت طویل عرصہ سے تھی۔ حکمرانوں میں نئے خیالات یا تازہ کاری کی امنگ نہ تھی اور دستکاروں اور فنکاروں میں کام کرنے سے محبت اور جوش نہ تھا۔ وہ کمیوں کی طرح سال بھر مقررہ اجرت پر کام کرتے ہوں گے اور محنت اور فن کی ترقی میں ان کے معاوضے میں اضافے کا امکان نہ تھا۔ وہ بیگار سمجھ کر یہ کام کرتے ہوں۔ دھات سازی کی مہارت تو تھی مگر وہ غیر دلچسپ روٹین کی صورت رکھتی تھی ۔
مٹی کے برتن
ترمیمسندھ تہذیب کے خاکی ظروف عموماً چاک پر بنے ہوئے ہیں۔ لیکن اس تہذیب کے سارے عرصے میں ہمیشہ ایک قلیل تعداد برتنوں کی ہاتھ سے بنتی رہی ہے۔ اس تہذیب کے خد و خال متعین کرنے کے لیے مٹی کے برتن اتنی زیادہ اہمیت نہیں رکھتے، جتنے قدیم گدروشی ثقافت کو سمجھنے کے لیے وہاں کے برتن اہمیت رکھتے تھے۔ تاہم ان کی اپنی ایک شخصیت ہے اور اس کو سمجھنا ضروری ہے۔ یہاں برتنوں کی تھوک پیداوار کی جاتی تھی اور یہ سادہ ہوتے تھے۔ ان میں ایک نمایاں برتن وہ رکابی جو اونچے پائیدان پر جڑی گئی ہے۔ اسے عموماً اسے چڑھاوے کا پائدان کہا گیا ہے۔ منقوش برتنوں میں سرخ زمین پر سیاہ نقاشی کی گئی ہے۔ یہ دونوں چیزیں ۔۔۔ پائدان اور سرخ زمین پر سیاہ نقاشی ۔۔۔ گدروشی ثقافت میں موجود ہیں۔ لہذا ان کے ماخذوں کو تلاش کرنے کے باہر جانے کی ضرورت نہیں ۔
ان پر جو سجاوٹی نمونے بنے ہیں۔ ان میں ایک تو دائرے کا کاٹتا ہوا دائرہ ہے۔ جس کی تکرار سے ایک جال سا بن جاتا ہے۔۔ دوسرے جانوروں کی تصویریں۔ بعض برتنوں پر مور کی شکل ہے، جو برتن کے اوپر کے حصے میں نظر ہوتی ہے۔ اس سے مور کی تعظیم کا احساس ہوتا ہے۔ بکری کی شکلیں بہت کم ہیں۔ مچھلی کی شکلیں بھی برتنوں پر نظر آتی ہیں۔ انسانی شکل کم ہی نظر آتی ہیں۔ ایک جگہ ہرنی اپنے بچے کو دودھ پلا رہی ہے۔ ہرنی کی کمر پر ایک پرندہ بیٹھا ہے اور پس منظر میں ایک مچھلی، نرسل کے کچھ پودے اور دوسری چیزیں نظر آ رہی ہیں۔ پیپل کا بھی ملتا ہے اور تین پتیوں والا گلاب کا پھول بھی۔ ایک برتن کے ایک ٹکڑے پر ایک آدمی اور اس کا بچہ ہے، دونوں نے ہاتھ اٹھا رکھے ہیں اور ان کے ساتھ پرندے اور مچھلیاں ہیں۔ ایک اور جگہ ایک آدمی نے مچھلیاں پکڑنے کے دو جال ایک لاٹھی پر لکائے ہوئے ہیں اور لاٹھی کندھوں پر لاد رکھی ہے۔ قریب ہی ایک دوسرا آدمی ہے۔ درمیان میں مچھلیاں اور ایک کچھوا نظر آ رہا ہے۔ یہ ساری باتیں سندھ تہذیب کی انفرادیت کو ظاہر کرتی ہیں۔ اس مصوری میں ہیت پر زیادہ زور نہیں دیا گیا ہے۔ جیسا کہ گدروشی ثقافت میں تھا۔ البتہ جانوروں اور پرندوں کی شکلیں کلی ثقافت سے قدرے ملتی ہیں ۔
کچھ برتن ایسے بھی ہیں جن پر کثیر رنگی مصوری کی گئی ہے۔ پہلے برتن پر زرد پانی چڑھایا گیا، پھر اس پر سبز اور سرخ رنگ میں تصویریں بنائی گئیں ہیں۔ کہیں زرد زمین پر کالے، سفید اور سرخ رنگ میں پرندے اور جانور بنائے گئے ہیں۔ ان کثیر رنگی برتنوں کا تعلق نال سے جوڑا جا سکتا ہے۔ ان تمام برتنوں کے بنانے رنگنے اور مصور کرنے کی تیکنک نہایت پیچیدہ اور ماہرانہ ہے اور اکثر برتنوں پر روغنی تہ چڑھائی گئی ہے۔ روغنی برتن بلوچستان میں نہیں تھے۔ لہذا پگٹ کا خیال ہے روغنی چمک دینے کی تیکنک میسوپوٹیمیا سے سیکھی گئی ہے۔ بعض برتنوں پر ایسی مہر کندہ کی گئی جو یا تو کارخانے کا نام ہیں یا تو یہ برتن کے مالک کا نام بھی ہو سکتا ہے۔ جس کے حکم سے یہ برتن بنائے گئے ہیں۔ یہ آبخورے ہیں اور ان کا پیندا ہے۔ یہ پیندے پرکھڑے نہیں ہو سکتے ہیں۔ یہ اتنی زیادہ تعداد میں ملے ہیں کہ شاید ایک دفعہ استعمال کرکے پھینک دیے جاتے ہوں گے۔ ہڑپہ سے دس برتن ایسی مہروں والے ملے ہیں ۔
ایک عجیب و غریب برتن جو اس تہذیب کا خاصا ہے۔ عمودی کناروں والا گول کم چوڑا مگر بہت لمبا برتن تھا۔ جس کا سارا بدن سوراخوں سے چھلنی ہے۔ یہ یا تو دودھ دہی مکھن نکال نے کے سلسلے میں یا پھلوں کا رس نکالنے کے کام آتا ہوگا یا مذہبی آگ جلانے خاص کر لکڑیوں کو سلگتے رکھنے کے کام آ سکتا تھا۔ ایک دو جگہ راکھ کے پاس ملا ہے ۔
کچھ مرتبان، پائدان والے پیالے، پائدان والی طشتریاں اور ڈھکن دار روٹی دان بھی ملا ہے۔ آخری دنوں میں یہی برتن طشتری نما سے پیالہ نما بن جاتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ ان برتنوں کی اور ان پر بنی سجاوٹی تبدیلی آجاتی ہے ۔
ماخذ
یحیٰی امجد۔ تاریخ پاکستان قدیم دور
ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم