وادی سندھ کی تجارت اور سکہ
اس مضمون یا قطعے کو وادیٔ سندھ کی تہذیب میں ضم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ |
پہلے دؤر میں وادئے سندھ کی تجارت بیل گاڑیوں اور گھوڑوں کے ذریعے یورپ اور خلیجی ممالک کے ساتھ تجارت ہوتی تھی۔ وادی سندھ میں کپاس بھی کاشت کی جاتی ہے۔ جس کا ثبوت موہنجودڑو سے ملا ہے۔ اسی کپاس کے دھاگے سے بنے ایک کپڑے کا ٹکڑا بھی یہیں سے ملا ہے۔ جس پر سرخ اور مجیٹھی رنگ چڑھایا گیا تھا۔ آج بھی سندھی اجرک کے یہ مخصوص رنگ ہیں۔ اس دور کے سامان تجارت کی ایک نہایت اہم شے کپاس تھی۔ چاہے وہ روئی کی شکل میں ہوں، دھاگے کی شکل میں ہو یا کپڑے کی شکل میں۔ میسو پوٹیمیا کو یہاں کی کپاس برآمد کی جاتی تھی ۔
بکری وہی نفیس اون والی بکری تھی جو کشمیر میں تھی اور جس سے شالیں بنتی ہیں۔ لہذا وادی سندھ میں اونی لباس کا استعمال خارج امکان نہیں ۔
میسوپوٹیمیا جو وادی دجلہ و فرات کی تہذیب تھی اس کے وادی سندھ سے تجارتی تعلقات تھے۔ فنون دستکاریوں کا تبادلہ ہوتا تھا۔ اس کے نتیجے میں وادی سندھ کی تہذیب کے اثرات جمدت نضر کے زمانے کی تصویروں میں نظر آتے ہیں۔ مثلاً ایک جگہ بیل کے جسم پر ہاتھی کی سونڈ لگی ہے۔ یہ خالص وادی سندھ کی تصویر ہے ۔
تانبا بلوچستان اور راجستھان سے حاصل کیا جاتا تھا اور بہ افراط یہ میسر تھا۔ قلعی ( ٹن ) مقامی چیز نہیں تھی یہ یقینا برآمد کی جاتی ہوگی۔ سونے اور چاندی کے زیورات استعمال ہوتے تھے۔ چاندی کے کچھ برتن بھی ملے ہیں۔ سونا میسور، قندھار اور ایرانی شہروں سے درآمد کیا جاتا ہوگا اور دریاؤں کے کنارے آباد نیاریئے بالو میں سے سونا نکالتے ہوں گے۔ چاندی اجمیر اور جنوبی ہند میں سکے کے ساتھ مدغم تھی اور افغانستان و ایران میں تو وافر تھی۔ جہاں سے یہ درآمد ہوتی ہوگی۔ لاجورد، یشب و یاقوت بھی زیوروں میں استعمال ہوتے تھے۔ لاجورد بدخشاں ( افغانستان ) میں عام تھا۔ بدخشاں کا علاقہ سندھ کی تہذیب کے دائرے تھا اور وہاں سے یہ پتھر لا کر ان کے زیورات بنائے جاتے تھے۔ چنھودڑو میں لاجورد خام شکل میں ملا ہے۔ جس سے منکے بنائے جاتے تھے۔ زمرد شاید خراسان ( ایران ) سے لایا جاتا تھا اور یشب ترکستان یا برما سے درآمد ہوتا تھا۔ یشب مقامی پتھر نہ تھا۔ موہنجودڑو سے ایک یشب کی 1/2 4انچ کی پیالی ملی ہے۔ ہو سکتا ہے یہ چین سے آتا ہو۔ جہاں اس کے برتن بنانے کا رواج تھا۔ یاقوت ہیرا پور ( الہ آباد بھارت ) سے آتا تھا۔ یہ جگہ دریائے سندھ سے چار سو میل دور ہے۔ سنگ مرمر مقامی چیز تھا ۔
وادی سندھ سے جو چیزیں میسوپوٹیمیا چیزیں جاتی تھیں ان تانبا، ہاتھی دانت، بندر، موتی، شامل تھے۔ ہاتھی دانت کی کنگیاں، بابلی تحریروں کے مطابق ’ ملوہہ ‘ سے منگائی جاتی تھیں۔ ملوہہ کے بارے میں عام رجحان ہے کہ وہ وادی سندھ کا کوئی شہر تھا۔ کوسامبی کا خیال ہے یہ موہونجودڑو تھا۔ کیوں کہ موہنجودڑو سے ایسی ہی ایک کنگی ملی ہے۔ ان کے علاوہ کپاس، سوتی دھاگہ، سوتی کپڑا اور اجرک بھی برآمد ہوتی تھی ۔
حیرت کی بات یہ ہے وادی سندھ سے شیشے کی چوڑی یا کوئی اور چیز نہیں ملی ہیں۔ جب اس وقت کہ سمیری اور مصری شیشہ بنانا جانتے تھے اور ان ہاں اس کا رواج تھا۔ اندرون ملک تجارت کا سب سے بڑا ذریعہ دریائی کشتیاں تھیں یا بیل گاڑیاں۔ تھورا بہت ثبوت اونٹ استعمال کرنے کا ملا ہے۔ موہنجودڑو میں ایک اونٹ کا ڈھانچہ پندرہ فٹ گہرائی میں مدفون ملا ہے ۔
گدھے اور خچر کے استعمال کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔ البتہ موہنجودڑو سے ایک گھوڑے کا ڈھانچہ ملا ہے۔ جو اس تہذیب کے زمانہ عروج کے بعد کا ہے۔ ان کے برعکس جو ثبوت دستیاب ہوئے ہیں وہ بیل کی بے شمار تصویریں، مجسمے اور بیل گاڑیوں کے سفالی اور تانبے کے ماڈل ہیں۔ لہذا یہ زیادہ قرین قیاس ہے کہ تجارت کشتیوں اور بیل گاڑیوں پر ہوتی ہوگی۔ اس کے علاوہ سامان ڈھنونے والے مزدور یا غلاموں کا ثبوت شاہراؤں کے قریب بنے چند فٹ اونچے ستون، پتھر کے ڈھیروں اور چھجوں سے دیا جا سکتا ہے۔ جو سر سے گٹھڑی اتارنے کے کام آتے ہوں گے ۔
سمندر سفر بڑی کشتیوں یا لکڑی کے جہازوں پر ہوتا تھا۔ ایک عجیب بات یہ ہے کہ کشتیوں کے ذریعہ اتنی زیادہ آمد و رفت کے باوجود صرف ایک برتن پر کشتی کی تصویر ملی ہے۔ ایک مہر پر ایک تصویر میں کشتیوں کے درمیان ایک مربع شکل کا سرکنڈوں کا احاطہ ہے۔ اس کے اندر ایک چبوترا پر ایک ملاح گھٹنوں میں سر دیے بیٹھا ہے ۔
وادی سندھ کے مال تجارت میں زرعی اشیائ کے علاوہ مویشیوں کا بھی وافر حصہ تھا۔ ہڑپہ سے ملنے والی ہڈیوں کی کثیر تعداد سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔ ان میں کوہان والا بیل جنہیں سانڈ کہتے ہیں پالتو جانور تھے۔ اس طرح کوہان والا بیل بھی عام تھا۔ سانڈ قدیم زمانے میں صرف ارض پاکستان سے ملا ہے۔ دنیا کے دیگر حصوں میں کہیں نہیں ملا ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے پالتوں جانورں میں بھینس، بکری، بھیڑ اور سور شامل تھے۔ ان لوگوں میں کتا پالنے کا رواج بھی تھا اور بلی بھی پالی جاتی تھی۔ ان دونوں کے کافی ثبوت ملے ہیں۔ کتے کی دو قسمیں تھیں۔ ایک وہی جو آج بھی عام ہے۔ دوسری بھڑیے کی نسل سے ماخوذ ہے۔ گھوڑا اور گدھا بھی اس دور میں پایا جاتا تھا۔ گھوڑا قدیم دور میں رانا غنڈئی میں ملا ہے۔ ہڑپہ میں ہاتھی بھی تھا۔ خاص طور پر اس کی دو قسمیں تھیں۔ اعلیٰ قسم جسے بھارت میں ’ کومور یا ڈھنڈیا ‘ کہتے ہیں۔ اس کی کمر سیدھی، سر چوکور اور ٹانگیں مظبوط ہوتی ہیں۔ دوسری قسم کو ’ میرگھا ‘ کہتے ہیں۔ اس کمر ڈھلونی اور جثہ نسبتاً چھوٹا ہوتا ہے ۔
سکہ
ترمیموادی سندھ کے سکے چاندی کے ٹکرے ہوتے تھے۔ جن پر کسی مہر کے ذریعے نشان بنادیا جاتا تھا۔ ان سکوں کا ایک بڑا ذخیرہ کریم نگر ) حیدرآباد دکن۔ انڈیا ( سے ملا ہے۔ وادی سندھ کے زوال کے بعد بھی یہ سکے جو پن یا کرشاپن کہلاتے تھے، ہندوستان میں بڑی مدت تک رائج رہے۔ گوتم بدھ کے زمانے میں یہ سکے چلتے تھے۔ سکندر جب ٹیکسلا پہنچا تو اسے یہی سکے نذر کیے گئے۔ ایک زمانے میں ہندوستان کے قدیم ترین سکے سمجھے جاتے تھے۔ لیکن ان کی اصلیت اسی وقت معلوم ہوئی، جب دیکھا گیا کہ ان پر اسی زبان میں تحریریں اور ویسے ہی نشانات ہیں جسیے کہ وادی سندھ کی مہروں پر۔ موہنجودڑو کے آثار میں وہ سانچے بھی ملے ہیں جن سے ان سکوں پر نشانات بنائے جاتے ہیں ۔
ڈی ڈی کوسامبی کا کہنا ہے کہ یہ سکے بعد کے پنیوں نے ڈھالے ہیں۔ اس بات کو اس سے بھی تقویت ملتی ہے کہ موہنجودڑو یا ہڑپہ میں یہ سکے نہیں ملے ہیں ۔
ماخذ
یحیٰی امجد۔ تاریخ پاکستان قدیم دور
پروفیسر محمد مجیب۔ تاریخ تمذن ہند
ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم
ڈی ڈی کوسمبی۔ قدیم ہندوستان