عموماً مہریں صابن پتھر کو تراش کو بنائی جاتی تھیں، بعض اوقات صابن پتھر کو پیس کر سفوف کو گوند کر مہریں بنائی جاتی تھیں۔ جنہیں بعد میں پکا لیا جاتا تھا۔ بعض مہریں تانبے اور کانسی کی بھی ہیں۔ عموماً یہ مربع شکل کی ہوتی تھیں اور پون انچ سے سوا انچ لمبی اور اتنی ہی چوڑی ہوتی ہیں۔ موہنجودڑو سے 1200 سے زائد مہریں ملی ہیں۔ اوسط درجہ کی مہریں اتنی شاندار ہیں کہ دستکاری کا شاہکار معلوم ہوتی ہیں۔ عموماً ان کی پشت پر ابھار ہوتا تھا۔ جس میں دھاکہ ڈالنے کا سوراخ ہوتا تھا۔ مگر بعض مہروں میں یہ بھی نہیں ہوتا تھا۔ اکا دکا مہریں گول اور مٹکے سے ملتی جلتی تھیں۔ مہروں کو تیار کرنے کے بعد الکلی میں ڈبودیا جاتا تھا اور پھر اسے آگ میں پکایا جاتا تھا۔ اس کے نتیجے میں اس کی سطح نہایت سفید، ملائم اور چمکدار بن جاتی تھی۔

عموماً مہروں پر جانوروں کی حقیقت پسندانہ شکلیں ہیں۔ کہیں کہیں دیو مالائی شکلیں ہیں۔ مثلاً اک سنگھا۔ یعنی ایک ایسا گھوڑا جس کے ماتھے پر سینگ ہے۔

ان مہروں پر اصلی جانوروں اور دیومالائی جانوروں کی تصویروں کے علاوہ تحریریں بھی ہیں اور تصویری علامتیں بھی۔ سب چیزیں الگ الگ مہروں پر بھی ہیں اور مہروں پر ان میں کسی بھی دو یا تین چیزوں کا امتزاج بھی ہے۔ بعض مہروں پر انسانی شکلیں ہیں۔ دیو مالائی جانوروں میں سے جس جانور کی تصویر کثرت سے بنائی گئی ہے وہ اک سنگھا ہے۔ اس کا بدن بیل کا، دم اور چہرہ گھوڑے کا اور ماتھے پر ایک سینگ ہے۔ یونانی دیومالا میں اک سنگھے ) یونی کارن ( کا ذکر ملتا ہے۔ بھارت کے آثار قدیمہ میں اک سنگھے کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔ لہذا اسے خاص وادی سندھ کا عنصر سمجھنا چاہیے۔ ایک دلچسپ پات یہ ہے کہ جہاں کہیں بھی اس کی تصویر بنائی گئی ہے، اس کی ٹھوڑی کے نیچے ایک برتن بنایا گیا ہے۔ ایک سلاخ پر ایک پیالہ رکھا ہوا ہے۔ پیالے کے مرکز سے ایک سلاخ پر اوپر اٹھی ہوئی ہے اور اس اوپر پیالے کے قطر کا ہی سائبان بنایا گیا ہے۔ جیسے کہ ٹیبل لیمب کا شیشہ ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حقے کی نلکی پر چم دھری ہو اور اس کے اوپر ڈھکن قدرے اوپر ہے۔ اس کی توجیہات مختلف کی گئی ہیں۔ مگر اغلب یہی ہے کہ یہ آتشدان ہے۔ جس پر کوئی مذہبی چڑھاوا چڑھایا جا رہا ہے۔ اور اک سنگھا بھی مذہبی اہمیت کا نشان ہے۔ یہ کسی قبیلے کا ٹوٹم یا طاقت و اقتدار کا دیوتا بھی ہو سکتا ہے۔ ایک اور مہر پر اسے کہیں جلوس میں لے جایا جا رہا ہے۔

ایک مقبول عام تصویر بیل کی ہے۔ چھوٹے سینگوں والا بیل جس کے آگے کھرلی رکھی ہوئی ہے۔ بڑے سینگوں والا بیل بھی عام ہے۔ جس کی گردن پر گوشت کی چادر سی لٹکی ہوئی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ گائے اور بھینس کی شکلیں کافی ملتی ہوئی ہیں۔ ایک سینگ والے گینڈے کی کچھ تصویریں بھی ملتی ہیں۔ یہ جانور اس زمانے میں یہاں موجود تھا۔ اس کے آگے بھی کھرلی نظر آتی ہے۔ شیر خاص کر لکیروں دار شیر ان مہروں میں نظر آتا ہے۔ یہ بھی وادی سندھ کے جنگلوں میں ہوتا تھا۔ ایک مہر پر ایک آدمی درخت پر بیٹھا ہے نیچے شیر کھڑا اس کی طرف دیکھ رہا ہے۔ ایک آدھ مہر پر ہاتھی بھی بنایا گیا ہے۔ گھڑیال کی شکل کئی مہروں پر نظر آتی ہے۔ ایک مہر پر تین سینگوں پر والا اک سنگھا ہے۔ سر ہرن کے ہیں اور بدن اک سنگھے کا۔ ایک مہر پر چھ مختلف جانوروں کے سر ہیں۔ جن میں اک سنگھا، سانڈ، مرگ ) ہرن کی ایک قسم ( اور شیر نظر آ رہے ہیں۔ باقی حصہ ٹوٹا ہوا ہے۔ کسی مہر پر تین سر ہیں کسی پر دو۔ ایک مہر پر پیپل کے درخت میں سے ایک اک سنگھے کے دوسرا اگ رہا ہے۔ بعض مہروں میں انسان جانورں یا بلاؤں سے لڑ رہا ہے یا جانوروں کی خدمت میں ہے۔ ایک جگہ ایک آدمی بھینس پر بھالے سے وار کر رہا ہے۔ دو مہروں پر تین سروں والا آدمی بیٹھا ہوا ہے۔ جس کے بازو کندھوں تک چوڑیوں سے بھرے ہوئے ہیں۔

ان مہروں کی ایک خاص خصوصیت یہ ہے کہ یہ سب کی سب دستخطی مہروں کی حثیت رکھتی ہیں۔ یا یوں کہنا چاہیے کہ عہدہ یا اٹھارٹی کے اظہار سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ افسروں کی سرکاری مہریں، ٹھپے یا چانک ہیں۔ قدیم مشرق میں اس قسم کی سرکاری مہروں کا استعمال تمام ممالک میں عام تھا۔ سمیری تہذیب میں سلینڈر نما مہریں تھیں۔ جب کہ یہاں صرف چوکور ہیں۔ جس کا مطلب ہے ان علاقوں میں تہذیبی یا سیاسی علحیدگی تھی۔ تجارتی سامان کی حفاظت کے لیے یہ مہریں گٹھڑیوں یا بوریوں پر ثبت کی جاتی تھیں اور اپنے وقت میں اس مہر ثبت کرنا بھی دنیاوی سے زیادہ مذہبی عمل تھا۔

مہروں پر پیتل کے پتے مذہبی اہمیت کے ساتھ بنائے جاتے تھے۔ مہروں کی اہمیت مذہبی تھی اور یہ عملی تجارت کو کنٹرول کرتی تھی۔ یہ بطور تحریم سامان تجارت کی بند گٹھڑیوں پر لگائی جاتی تھی۔ ہر سامان کسی مندر کی ملکیت ہوتا تھا یا اس کی امان میں ہوتا تھا اور مندر کی مہر لگنے سے دیوتا کی روحانی قوت اس سامان کی حفاظت کرتی تھی۔ اگر کوئی تاجر مندر سے الگ اپنی جائداد بنالیتا تو وہ اپنی الگ مہر بنواتا تھا۔ یقینا اسے خود بھی کوئی مذہبی رتبہ حاصل ہوجاتا ہوگا۔ اس طرح ہر تاجر یا تاجر خاندان کی ایک مہر ہوتی ہوگی۔ بلکہ ہر اہم شخص ( اور خاندان ) پاس بھی ایک مہر ہوتی ہوگی۔ یہ اس کی ملکیت کی دستاویزی ثبوت بھی ہوتا تھا اور اس کے آزاد شہری ہونے کا۔ غلاموں اور شودروں کے پاس شاید مہریں نہیں ہوں گی۔ اگرچہ انھیں تخلیق تو وہی کرتے تھے۔

ہڑپہ میں نسبتاً زیادہ قدیم زمانے کی انتہائی ننھی منی مہریں بھی ملی ہیں جن کی لمبائی 1.07 تا 1.36 انچ ہے۔ چوڑائی 1.02 تا 1.06 موٹائی 1.05 تا 1.13 انچ ہے۔ ان پر جانوروں تصویریں نہیں ہیں یا نشانات ہیں یا پھر مچھلی یا مگر مچھ وغیرہ نظر آتے ہیں۔ ان میں سوراخ بھی نہیں ہیں۔

پتھر کی مہروں کی طرح تانبے کی ٹکیاں بھی ملی ہیں۔ ان میں ایک طرف عبارت ہے اور دوسری طرف جانوروں کی تصویر جن میں بیل، اک سنگھا، ہاتھی، شیر، رینو سارس خرگوش اور طرح طرح کی بلائیں بنائی گئی ہیں۔ بعض اساطیری جانور بھی ہیں۔ مثلاً بیل اور ہاتھی کا مجموعہ یا بیل اور آدمی کا مجموعہ۔ ان کے بارے میں خیال ہے کہ یہ جنتر ( تعویز ) تھے۔ ی[1][2][3][4]

حوالہ جات

ترمیم
  1. حیٰی امجد، تاریخ پاکستان قدیم دور
  2. پروفیسر محمد مجیب۔ تاریخ تمذن ہند
  3. ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم
  4. ڈی ڈی کوسمبی، قدیم ہندوستان