وادی طوی۔ کوہ طور کے دامن میں جو وادی ہے اس کا نام طوی ہے، یہااں حضرت موسی کو رسالت کا شرف اورپہلی وحی عطا کی ان مقامات میں سے ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے خصوصی تقدس عطا فرمایا ہے قرآن میں اس کا ذکر دو جگہ ہے

بیشک میں ہی تمھارا رب ہوں سو تم اپنے جوتے اتار دو، بیشک تم طوٰی کی مقدس وادی میں ہو

جب ان کے رب نے طوٰی کی مقدّس وادی میں انھیں پکارا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : انک بالواد المقدس طوی۔، المقدس سے مراد مطہر ہے، القدس کا معنی طہارت ہے۔ الارض المقدسہ سے مراد پاک زمین ہے۔ اس کو مقدس اس لیے کہا گیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہاں سے کافروں کو نکال دیا تھا اور مومنین کو آباد کیا تھا۔ طویً ابن عباس اور مجاہد وغیرہ سے مروی ہے کہ یہ وادی کا نام ہے۔ ضحاک نے کہا : یہ عمیق گہری، گول وادی ہے جیسے کوئی لپٹی ہوئی چیز ہوتی ہے۔ جوہری نے کہا : طوی شام میں ایک جگہ کا نام ہے۔[1]

  • ابن ابی حاتم نے ابن عباس سے ” انک بالواد المقدس“ کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد ارض مقدس ہے اور اس کو طوی کہنے کی وجہ یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) اس وادی سے رات کو گذرے وہ لپیٹ دی گئی کہا گیا کہ اس طرح اور اسی طرح وادی لپیٹ دی گئی اور لپیٹنا رات کو ہوا اور پھر اس کو بلند کیا وادی کے اگلے حصے کی طرف اور یہ اللہ کے نبی موسیٰ (علیہ السلام) تھے (جن کے لیے زمین کو لیپٹ دیا گیا)
  • ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید اور ابن منذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” انک بالواد المقدس“ میں المقدس سے مراد برکتوں والی۔ طوی ایک وادی کا نام ہے۔
  • ابن ابی حاتم نے مبشر بن عبید (رح) سے روایت کیا کہ طوی بغیر نون کے ہے ایلہ کی ایک وادی ہے اور یہ خیال کیا گیا کہ اس کو برکت کے ساتھ دو مرتبہ لپیٹ دیا گیا۔[2]

حوالہ جات

ترمیم
  1. تفسیر قرطبی
  2. تفسیر الدرالمنثور جلال الدین سیوطی