وان ایلن بیلٹ توانائی سے بھر پور بار والے ذرات کا ایک علاقہ ہے، یہ ذرات شمسی ایٹمی گیس کے طوفانوں سے نکلتے ہیں، جو سیارے کے مقناطیسی میدان کے باعث اس سیارے کے گرد قبضہ کرلیتے ہیں اور ہمہ وقت ایک سیٹلائٹ کی طرح گردش میں رہتے ہیں۔[1]

ان تیز رفتار ذرات سے پیدا ہونے والا تابکاری سیٹلائٹ برقیاتی آلات میں مداخلت کرسکتا ہے اور یہاں تک کہ بین الستاروی سفر کے دوران ان کے ذریعے گزرنے والے خلابازوں کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ شمسی سرگرمی میں تبدیلی کے ساتھ تابکاری کے بیلٹوں کی شکل، سائز اور شدت میں تبدیلی آتی ہے، جس کی وجہ سے ان کی حالت کا اندازہ لگانا مشکل ہوجاتا ہے۔

زمین کے پاس اس طرح کے دوایلن بیلٹ ہیں اور بعض اوقات دوسرے تابکاری بیلٹ عارضی طور پر بھی بن جاتے ہیں۔اور بعض اوقات یہ ایک دوسرے میں ضم بھی ہو جاتے ہیں ۔

اندرونی تابکاری کا بیلٹ زمین سے تقریبا 600600 میل دور ہے اور بیرونی تابکاری کا بیلٹ 36،000 میل دور تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ خلائی جہاز کا سامنا کرنے والے سب سے بڑے خطرات میں سے ایک ہے۔

وان ایلن بیلٹ کی دریافت کا سہرا ایکسپلورر 1 مشن کے دوران سن 1958 میں جیمز وان ایلن کے سر بندھا[2]

A cross section of Van Allen radiation belts

تابکاری بیلٹ نہ صرف خلائی نیوی گیشن کے لیے خطرہ ہیں، بلکہ وہ زمین کی حفاظت بھی کرسکتے ہیں۔ سورج اور کائناتی شعاعوں سے نکلنے والے تابکاری کے ذرات تابکاری بیلٹ کے ذریعہ روکے جاتے ہیں، جو زمین کو تابکاری سے دور رکھتا ہے تاکہ انسانوں کو نقصان سے بچائے۔

تحقیقی نقطہ نظر سے وان ایلن تابکاری کے حلقوں کا مطالعہ سائنسدانوں کے لیے شاکلہ (plasma) کا مطالعہ کرنے کے لیے سب سے آسان ذریعہ ہے۔ شاکلہ ایسی چیز ہے جس سے کائنات کا تقریبا 99 فی صد بنا ہے، لیکن ابھی تک پلازما میں موجود عمل ٹھیک سمجھا نہیں جا سکا۔[3]

  1. "وان ایلن" 
  2. "دریافت" 
  3. "English"