وطنِ اِقامت: وہ جگہ ہے کہ مسافر نے پندرہ دن یااس سے زیادہ ٹھہرنے کاوہاں ارادہ کیا ہو۔[1] صاحب بدائع امام کا سانی کے بیان کے مطابق وطن کی تین قسمیں ہیں : (1) وطن اصلی۔ (2) وطن اقامت (3) وطن سکنی۔ وطن اقامت وطن اصلی سے کم درجے کا وطن ہوتا ہے۔ [2]

وطن اقامت کا حکم ترمیم

وطن اقامت وہ جگہ ہے جہاں کوئی شخص شرعی سفر کر کے پندرہ دن یا زیادہ مدت کے لیے عارضی طور پر مقیم ہوتا ہے۔ نماز سے متعلق وطن اصلی اور وطن اقامت کا حکم یکساں ہے ہر دو مقامات پر انسان پوری ہی نماز ادا کریگا، عبد اللہ بن عمر اور بعض دوسرے صحابہ سے ثابت ہے کہ اگر کوئی آدمی اپنے اصلی وطن سے اڑتالیس میل یا زیادہ دور جاکر پندرہ دن سے کم مدت ٹھہرنے کا ارادہ کرے تو وہ مسافر شمار ہوگا اور نماز قصرادا کریگا۔[3]

وطن اقامت کب باطل ہوتا ہے ترمیم

وطن اقامت دوسرے وطن اقامت کو باطل کر دیتا ہے یعنی ایک جگہ پندر دن کے ارادہ سے ٹھہرا پھر دوسری جگہ اتنے ہی دن کے ارادہ سے ٹھہرا تو پہلی جگہ اب وطن نہ رہی، دونوں کے درمیان مسافت سفر ہو یا نہ ہو۔ یوہیں وطن اقامت وطن اصلی و سفر سے باطل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح وطن اقامت وطن اصلی و سفر سے باطل ہو جاتا ہے [4]

  • دوسری جگہ ہے : والحاصل ان انشاء السفر یبطل وطن الاقامۃ اذاکان منہ امالوانشأہ من غیر ہ فان لم یکن فیہ مرورعلی وطن الاقامۃ اوکان ولکن بعد سیر ثلثۃ ایام فکذلک ولو قبلہ لم یبطل الوطن بل یبطل السفر لان قیام الوطن مانع من صحتہ
  • حاصل یہ ہے کہ سفر شروع کرنے سے وطن اقامت باطل ہوجاتا ہے جبکہ سفر وہاں سے ہوا اور اگر سفر کسی اور جگہ سے ہو تواب وطن اقامت سے گذر نہیں ہوا یا ہوا لیکن تین دن بعد ، تو حکم یہی ہے اور اگر اس سے پہلے ہوا تو وطن بالکل باطل نہ ہوگا بلکہ سفر باطل ہوجائے گا، کیونکہ قیام وطن صحت سفر سے مانع ہوتا ہے [5]

وطن اقامت کی مدت ترمیم

وطنِ اقامت کے ليے یہ ضروری نہیں کہ تین دن کے سفر کے بعد وہاں اقامت کی ہو بلکہ اگر مدتِ سفر طے کرنے سے پیشتر اقامت کر لی وطنِ اقامت ہو گیا۔[6]

حوالہ جات ترمیم

  1. بہارشریعت، حصہ4،ص100
  2. البدائع : ج : 1: ص : 97، 98
  3. تفسیر معالم العرفان۔ مولانا صوفی عبد الحمید سواتی
  4. الدرالمختار و ردالمحتار، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، مطلب في الوطن الأصلي و وطن الاقامۃ، ج2، ص739
  5. ردالمحتار باب صلٰوۃ المسافر مطبوعہ مصطفی البابی مصر 1/586
  6. الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصلاۃ، الباب الخامس عشر في صلاۃ المسافر، ج1، ص143