وفد بنو جرم ذوالقعدہ میں بارگاہ نبوی میں حاضر ہوا۔[1]
سعد بن مرہ الجرمی اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ ہمارے دو آدمی بطور وفد بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے ایک کا نام الالصقع بن شریح بن صریم بن عمرو بن ریاح بن وعف بن عمیرہ بن الھون ب اعجب بن قدامہ بن جرم بن ربان بن حلوان بن عمران بن الحاف بن قضاعہ اور دوسرے ھوذہ بن عمرو بن یزید بن عمرو بن ریاح تھا۔ دونوں اسلام لائے رسول اللہ نے ایک فرمان لکھ کر دیا مجھے بعض لوگوں نے وہ شعر سنائے جو اصقع نے یعنی عامر بن عصمہ بن شریح نے کہے
وَكَانَ أَبُو شُرَيْحٍ الْخَيِّرُ عَمِّي ... فَتَى الْفِتْيَانِ حَمَّالَ الْغَرَامَهْ
ابو شریح الخیر میرے چچا تھے جو بڑے بہادر اور ذمہ داری کے برداشت کرنے والے تھے
عَمِيدَ الْحَيِّ مِنْ جَرْمٍ إِذَا مَا ... ذَوُو الآكَالِ سَامُونَا ظُلاَمَهْ
ایسی حالت میں بھی وہ قبیلہ جرم کے سردار تھے جبکہ مال و متاع پر دست درازی کرنے والوں نے ہمیں مصیبت میں ڈال رکھا تھا
وَسَابَقَ قَوْمَهُ لَمَّا دَعَاهُمْ ... إِلَى الإِسْلاَمِ أَحْمَدُ مِنْ تِهَامَهْ
جبکہ کے احمد نے مکے سے انھیں دعوت اسلام دی تو وہ اس دعوت حق کو قبول کرنے میں سب پر سبقت لے گئے
فَلَبَّاهُ وَكَانَ لَهُ ظَهِيرًا ... فَرَفَّلَهُ عَلَى حَيَّيْ قُدَامَهْ
انھوں نے آپ کو لبیک کہا اور آپ کے مددگار ہو گئے آپ نے انھیں قدامہ کے دونوں قبیلوں کا سردار بنا دیا جب یہ لوگ اسلام لائے تو پھر چند آدمی قوم کے دوبارہ بطور وفد کے حاضر ہوئے قرآن پڑھا اور حوائج دینی پوری کیں۔ جب انھوں نے پوچھا کہ ہمیں نماز کون پڑھائے تو فرمایا کہ تم میں سے نماز کی امامت وہ کرے جو تم میں سے قرآن سب سے زیادہ پڑھا یا سیکھا ہوا ہے۔
عمرو بن سلمہ بن قیس الجرمی ان میں سب سے چھوٹے تھے قرآن سب سے زیادہ جانے والے تھے لوگوں نے انھیں امام بنایاقبیلہ جرم میں ہمیشہ یہ سب سے آگے ہوتے اور بطور امام نماز پڑھاتے۔ جب تک زندہ رہے یہ نماز جنازہ اور مسجد کی امامت کرتے رہے۔
ابو یزید عمرو بن سلمہ کہتے ہیں ہم لوگ ایک ایسے پانی کے کنویں کے قریب رہتے تھے۔ جس پر لوگوں کا عام آنا جانا تھا ہم لوگوں سے پوچھا کرتے کہ یہ اسلام کیا ہے تو لوگ بتاتے کہ ایک شخص نے دعوی کیا ہے کہ وہ نبی ہے اللہ نے اسے رسول بنایا ہے اور وحی بھیجی ہے۔ میں جو کچھ سنتا اسے یاد کر لیتا اسی طرح مجھے بہت سا قرآن کا حصہ یاد ہو گیا عرب قبول اسلام کے لیے فتح مکہ کے منتظر تھے کہتے تھے دیکھتے رہو اگر رسول اللہ ان لوگوں پر غالب آجائیں تو آپ صادق و نبی ہیں۔
جب فتح مکہ کی خبر آئی تو ہر ایک نے اسلام قبول کرنے میں سبقت کی ان کے والد بھی اسی غرض سے رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے جب وہاں سے پلٹے تو لوگوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا انھوں نے لوگوں کو بتایا کہ میں رسول اللہ کے پاس سے تمھارے پاس سے آیا ہوں وہ تمھیں اس بات کا حکم دیتے ہیں اس بات سے منع کرتے ہیں فلاں نماز فلاں وقت اور فلاں نماز فلاں وقت پر پڑھو جب نماز کا وقت ہو تم میں سے ایک آذان پڑھے اور تمھار امامت وہ شخص کرے جو زیادہ قرآن جانتا ہو۔
جب ان لوگوں نے غور کیا تو سب سے زیادہ قرآن جاننے والے عمرو بن سلمہ تھے کیونکہ وہ شتر سواروں سے سن کر بہت پہلے یاد کرتے تھے اس قبیلے نے انھیں اپنا امام بنایا جبکہ یہ 6 برس کے تھے ان کے بدن پر ایک چادر ہوتی جو اکثر ہٹ جاتی ایک مرتبہ قبیلے کی ایک عورت نے کہا تم لوگ اپنے قاری کے سرین ہم سے کیوں نہیں چھپاتے،ان لوگوں نے مجھے بحرین کا گرہ در گرہ کرتا پہنایا جتنی مسرت مجھے اس کرتے سے ہوئی اتنی کسی اور چیز پر نہ ہوئی[2][3]

حوالہ جات

ترمیم
  1. حدائق الأنوار ومطالع الأسرار،مؤلف: محمد بن عمر بن مبارك الحميري الحضرمي الشافعی،ناشر: دار المنہاج - جدۃ
  2. طبقات ابن سعد حصہ دوم صفحہ 81 تا 83 محمد بن سعد، نفیس اکیڈمی کراچی
  3. نهایۃ الأرب في فنون الأدب مؤلف:شہاب الدين النویری ناشر: دار الكتب والوثائق القومیہ، القاہرہ