وفد بنو اسد قبیلہ بنواسد بن خزیمہ کے 10 اشخاص بارگاہ اقدس میں سنہ محرم ا لحرام میں حاضر ہوئے
ان میں حضرمی بن عامر، ضرار بن الازور، وابصہ بن معبد، قتادہ بن القائف، سلمہ بن حبیش، طلحہ بن خویلد اور نقادہ بن عبد اللہ بن خلف بھی تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس وقت مسجد میں تشریف فرما تھے اور نہایت ہی خوش دلی کے ساتھ مسلمان ہو ئے۔ لیکن پھر احسان جتانے کے طور پر کہنے لگے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اتنے سخت قحط کے زمانے میں ہم لوگ بہت ہی دور دراز سے مسافت طے کرکے یہاں آئے ہیں۔ راستے میں ہم لوگوں کو کہیں شکم سیر ہو کر کھانا بھی نصیب نہیں ہوا اور بغیر اس کے کہ آپ کا لشکر ہم پر حملہ آور ہوا ہو، ہم لوگوں نے برضا و رغبت اسلام قبول کر لیا ہے۔ ان لوگوں کے اس احسان جتانے پر خداوند قدوس نے یہ آیت نازل فرمائی کہ

يَمُنُّوْنَ عَلَيْكَ اَنْ اَسْلَمُوْا ۭ قُلْ لَّا تَمُنُّوْا عَلَيَّ اِسْلَامَكُمْ ۚ بَلِ اللّٰهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ اَنْ هَدٰىكُمْ لِلْاِيْمَانِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ (الحجرات 17) اے محبوب! یہ تم پر احسان جتاتے ہیں کہ ہم مسلمان ہو گئے۔ آپ فرما دیجئے کہ اپنے اسلام کا احسان مجھ پر نہ رکھو بلکہ ﷲ تم پر احسان رکھتا ہے کہ اس نے تمھیں اسلام کی ہدایت کی اگر تم سچے ہو۔[1]

ان لوگوں نے کہانت اور رمل کے بارے میں پوچھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انھیں منع فرما دیا[2]

سعید بن منصور نے اپنی سنن میں سعید بن جبیر سے روایت کیا ہے کہ دیہاتیوں یعنی بنو اسد میں سے ایک جماعت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں آئی اور آکر کہنے لگی کہ ہم خود آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں اور ہم نے آپ سے قتال نہیں کیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. سیرتِ مصطفی، مؤلف عبد المصطفیٰ اعظمی، صفحہ508، ناشر مکتبۃ المدینہ کراچی
  2. سیرت مصطفے ٰ، محمد ادریس کاندھلوی، صفحہ 133، کتب خانہ مظہری کراچی