وفد صدآء
وفد صدآء یہ وفد 8ھ میں حاضر خدمت نبوی ہوا۔
سب سے پہلے اس قوم کا ایک شخص زیاد بن حارث صدائی آیا تھا وہ اس وقت آیا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قیس بن سعد بن عبادہ کو چار سو کا دستہ دے کر قناۃ اور صداء کی طرف بھیجا تو زیاد بن حارث آئے اور کہا آپ اپنے لشکر کو واپس بلالیں میں اپنے قبیلے کے اسلام کا ذمہ لیتا ہوں پھر اپنی قوم کے 15 سرکردہ لوگوں کو لے کر آیا۔سعد بن عبادہ ان کی خدمت کے لیے مقرر ہوئے جب یہ وفد واپس ہوا تو ان کی قبیلہ میں اسلام پھیل گیا۔ زیاد نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عرض کیا ہمارے قبیلہ میں صرف ایک کنواں ہے۔ موسم سرما میں تو کافی ہوتا ہے لیکن موسم گرما میں خشک ہوجاتا ہے، اس لیے ہماری قوم کو متفرق ہو کر موسم پورا کرنا پڑتا ہے، چونکہ ہمارے قبیلے کو اسلام کی تعلیم کی زیادہ ضرورت ہے، اس لیے دعا فرمائیں کہ کنویں کا پانی نہ ختم ہوا کرے، آپ نے فرمایا سات کنکریاں لاؤ وہ لے آئے آپ نے ہاتھ میں لے کر واپس کر دیں اور فرمایا کہ اس کنوئیں میں ایک ایک کر کے پھینک دینا اورپھینکتے ہوئے اللہ اللہ پڑھتے جانا زیاد کہتے ہیں کہ پھر پانی کی ایسی کثرت ہوئی کہ اس کی گہرائی کا بھی پتہ نہ چلتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے زیاد سے فرمایا تیری قوم بہت مطیع اور فرماں بردار ہے، زیاد نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول کا احسان ہے کہ اللہ نے انھیں اسلام کی ہدایت دی حجۃ الوداع کے موقع پر 100 لوگ اس قبیلہ کے شریک ہوئے[1][2]