وفد خثعم میں جریر بن عبد اللہ کی سربراہی میں بارگاہ نبوت میں حاضر ہوا۔
جب جریر بن عبد اللہ ذو الخلصہ (بت) کو منہدم کر کے اور قبیلہ خثعم کے کچھ لوگوں کو قتل کر کے وفدعثعث بن زحراور انس بن مدرک سمیت قبیلہ خثعم کے چند آدمیوں کو لے کر رسول اللہ کے پاس حاضر ہوئے۔
ان لوگوں نے کہا ہم اللہ اور اس کے رسول پر جو کچھ وہ اللہ کے پاس سے لائے ایمان لاتے ہیں آپ ہمیں ایک فرمان لکھ دیجئے جو کچھ اس میں ہو ہم پیروی کریں۔ آپ نے انھیں ایک فرمان لکھ دیا جس پر جریر بن عبد اللہ اور حاضرین کی گواہی تھی۔[1]
ذوالخلصہ عرب کے قبیلہ خثعم کے بت خانہ کا نام تھا اس کو کعبۃ الیمامہ بھی کہا جاتا تھا، اس میں ایک بہت بڑا بت تھا جس کا نام خلصہ تھا، اس بت کی بڑے پیمانہ پر پوجا ہوتی تھی،
اسی قبیلہ خثعم کے متعلق ترمذی اورابوداؤد میں حدیث ہے
جریر ابن عبد اللہ کہتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبیلہ خثعم کے مقاتلہ پر ایک لشکر بھیجا تو اس قبیلہ کے کچھ لوگچند لوگوں نے سجدوں کے ذریعے پناہ ڈھونڈی لیکن مسلمانوں نے انھیں قتل کر دیا (جو اسلام قبول کرچکے تھے لیکن ان کا رہن سہن قبیلہ کے کافروں ہی کے ساتھ تھا نماز کی پناہ پکڑنے لگے) یعنی لشکر والوں کو علم ہو جائے کہ یہ مسلمان ہیں اور اس طرح وہ حملہ سے بچ جائیں لیکن ان کے قتل میں عجلت سے کام لیا گیا یعنی لشکر والوں نے ان کے سجدوں کا اعتبار نہ کیا اور یہ گمان کر کے کہ یہ بھی کافر ہیں اور محض قتل سے بچنے کے لیے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر رہے ہیں ان کو بھی قتل کر دیا جب اس واقعہ کی اطلاع رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہنچی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان مسلمان مقتولین کے ورثاء کو آدھی دیت دیے جانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ میں اس مسلمان سے بیزاری کا اظہار کرتا ہوں جو مشرکوں کے درمیان اقامت اختیار کرے صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ کی بیزاری کا سبب کیا ہے؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مسلمانوں کو کافروں سے اتنی دور رہنا چاہیے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کی آگ نہ دیکھ سکیں (لیکن اگر کوئی مسلمان کافروں میں مخلوط رہا تو گویا اس نے حکم کی پروا نہیں کی )۔"[2]

حوالہ جات

ترمیم
  1. طبقات ابن سعد حصہ دوم،صفحہ ،91 محمد بن سعد ،نفیس اکیڈمی کراچی
  2. جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 1671