ونگ کمانڈر سید محمد احمد
ونگ کمانڈر سید محمد احمد شہید (ستارہ جرأت، ستارہ بسالت) ونگ کمانڈر سید محمد احمد 30 اکتوبر 1930ء کو لکھنؤ (بھارت) میں پیدا ہوئے .انھوں نے 1954 ء میں رائل پاک فضائیہ میں شمولیت اختیار کی اور 17 جون 1956 میں بحیثیت فائٹر پائلٹ کمیشن حاصل کیا. ونگ کمانڈر سید محمد احمد پاک فضائیہ کے ان چند بہادر فضائی جنگجوؤں میں سے ایک ہیں،انھوں نے 1965 اور1971 کی دونوں جنگوں میں شرکت کی. 1965 کی جنگ کے دوران آپ نمبر 18 سکواڈرن میں بطور فلائٹ کمانڈر خدمات سر انجام دے رہے تھے۔ اور انھوں نے6 سے 19 ستمبر تک 19 آپریشنل مشنز میں شرکت کی.19 ستمبر 1965 کو ایسے ہی ایک حملے کے دوران اُن کے طیارے کو میزائل لگنے کی وجہ سے بہت نقصان پہنچا، تو انھوں نے پُرسکو ن اور پُر اعتماد رہتے ہوئے اپنی پیشہ وارانہ مہارت کو بروئے کار لا کے اپنے تباہ شدہ طیاروں کو میدان سے نکال کر پشاور پہنچایا مگر اس کاوش میں آپ سخت زخمی ہو گئے تھے۔1965 کی جنگ کے دوران آپ غازی رہے اور انھیں اس بہادری پر ستارئہ بسالت سے نوازا گیا۔ جب دسمبر 1971 میں جنگ شروع ہوئی تو آپ ڈھاکہ میں سٹاف آپریشنز آفیسر کی خدمات سر انجام دے رہے تھے اس بیس پر صرف ایک نمبر14 سکواڈر ن تھا جس کے مقابلے میں اس علاقے میں 10 بھارتی سکواڈرنز موجود تھے۔ انھوں نے اسٹیشن کمانڈر کے ساتھ مل کر دشمن کے حملوں سے بیس کو بچانے کے لیے بہترین منصوبہ بندی کی . سٹاف آفیسر ہونے کی وجہ سے آپ آپریشنل مشن میں حصہ نہیں لے سکتے تھے مگر انھوں نے رضاکارانہ طور پر کئی محیرالعقول آپریشنز میں حصہ لیا اور جانباز قیادت کی بہترین مثال پیش کی. 4 دسمبر1971 کی رات جب پاک فضائیہ نے مغربی بارڈر پر یلغار کی تو بھارتی فضائیہ نے اسی رات اپنے کینبرا سے تیج گاؤں ائیر فیلڈ پر پانچ دفعہ حملہ کیا تھا،مگر خوش قسمتی سے ہر بار حملہ آور اپنے اہداف سے چُوک گئے اور کوئی نقصان نہ ہوا. اگلی صبح پاک فضائیہ کے سیبرز ہر طرح کے حملہ آوروں سے نمٹنے کے لیے چوکس تھے۔ تقریباً صبح کے 7:30 پر ونگ کمانڈر احمد اپنے ونگ میں شامل فلائنگ آفیسر رُشدی کے ساتھ ڈھاکہ کی فضاؤں میں تھے کہ اچانک بھارتی فضائیہ کے چار ہنٹر طیارے وہاں حملہ آور ہو گئے۔ ونگ کمانڈر احمد حملے کے لیے بالکل تیار تھے کہ کچھ MIG-21 اور SU-7 طیارے بھی وہاں پہنچ گئے۔ احمد نے شاندار مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے چند سیکنڈز میں ایک ہنٹر کو شکار کر لیا. اس گھمسان کی جنگ میں ہنٹر فارمیشن کے لیڈر نے احمد کے F-86 سیبر پر میزائل داغ دیا جو ہدف پر لگا اور انھوں نے کور میتولا سے پانچ میل دور پیرا شوٹ سے چھلانگ لگائی . بہت تلاش و بسیار کے باوجود آپ نہ ملے تو انھیں شہید قرار دے دیا گیا۔ انھیں انتہائی نا موافق حالات میں ہمت اور شاندار بہادری دکھانے کی وجہ سے بعد از شہادت ستارئہ جرأت سے نوازا گیا، جس میں انھیں درج ذیل سنہری الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا گیا کہ 4 دسمبر 1971 کی صبح جب ہماری معمول کی فارمیشن ڈھاکہ کی فضاؤں میں تھی تو اچانک دشمن حملہ آور ہو گیا اور وہاں اُن کی مدد کو اور طیارے بھی آ پہنچے . معمول کی پٹرولنگ پرواز والی فارمیشن نے اتنی تعداد میں دشمن کے طیاروں کو دیکھ کر مدد مانگی تو ونگ کمانڈر احمد فوراً اُڑان بھر کے وہاں پہنچے اور دشمن سے پنجہ آزما ہو گئے۔اس سے پٹرولنگ پارٹی بحفاظت بیس پہنچ گئی۔ اسی معرکہ میں دشمن کے ایک طیارے نے احمد کے طیارے کو میزائل مارا اور انھوں نے باغیوں کے مقبوضہ علاقے میں پیراشوٹ سے چھلانگ لگائی تھی . انھیں بعد ازاں سرکاری طور پر جنگ میں گمشدہ قرار دے دیا گیا تھا۔ انھیں فرض سے بے مثال جانثاری اور غیر معمولی ہمت دکھانے پر ستارہ جرأت سے نوازا گیا،