ویکیپیڈیا:درخواست کردہ مضامین
علامہ عبدالرؤوف بلیاوی
رئیس المتکلمین علامہ حافظ عبد الرؤف بلیاوی رحمه الله کی ولادت با سعادت ہندوستان کے صوبہ اتر پردیش کے ضلع بلیا میں سنه 1912 ء میں ہوئی تھی۔ آپ بہت سے علوم و فنون کی دولت سے مالامال تھے، علم فقه، علم کلام، علم منطق، علم فلسفه علم نجوم وغیرہ میں آپ کو کوید طولیٰ حاصل تھا۔ علم توقیت اور علم ریاضی میں بھی آپ کو بڑی مہارت حاصل تھی۔
آپ نے اپنے ننیہال کلکتہ میں حفظ قرآن کیا، ابتدائی عربی فارسی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ذی قعدہ 1351ھ میں مدرسه حنفیه مرادآباد تشریف لائے اور یہاں رہ کر کئی سال تک علم کی پیاس بجھاتے رہے، جب حافظ ملت محدث مرادآبادی رحمه الله 1942ء دارالعلوم اشرفیہ مبارکپور سے جامعہ عربیہ ناگپور گئے تو علامہ بلیاوی بھی اپنی علمی تشنگی بجھانے کے لیے ناگپور چلے گئے۔ اور وہیں پہ آپ کی دستار بندی ہوئی۔
فارغ ہونے کے بعد 1942ء میں علامہ بلیاوی جامعہ عربیہ ناگپور میں ہی عارضی طور پر چند ماہ تک تدریسی خدمات انجام دیتے رہے، پھر مفتی اعظم ہند علیہ الرحمه کے فرمان پر آپ دار العلوم مظہر اسلام بریلی شریف میں تدریسی خدمات انجام دینے لگے ساتھ ہی ساتھ مفتی اعظم ہند کے دار الافتاء کا کام بھی کرتے تھے۔ آگے چل کر آپ نے امام اہلسنت محدث بریلوی رحمه الله کے فتاویٰ رضویہ جیسی عظیم فقه حنفی کی انسائیکلوپیڈیا کی تحقیق و اشاعت کا اہم کام سر انجام دیا۔ ادھر علامہ بلیاوی کی دارالعلوم اشرفیہ میں آمد ہوئی اور کچھ دن بعد حافظ ملت نے آپ کو اشرفیہ کا نائب شیخ الحدیث مقرر کیا۔
علامہ بلیاوی رحمه الله کے کچھ ایسے اہم کارنامے ہیں جو کبهی فراموش نہیں کئے جا سکتے، آپ کے تین اہم کارنامے یہ ہیں۔
◾الجامعة الاشرفیه کا خاکہ تیار کرنا۔ ◾تدریس و تعلیم کے ذریعہ بہترین مدرسین پیدا کرنا۔ ◾سُنّی دار الاشاعت کا قیام اور فتاویٰ رضویہ کے قلمی نسخوں کی تحقیق و اشاعت۔
علامہ بلیاوی رحمه الله فرماتے ہیں:
جب ایک دفعہ شہزادہ اعلیٰ حضرت حضور مفتی اعظم ہند مولانا مصطفیٰ رضا خاں صاحب علیہ الرحمه دار العلوم اشرفیہ مبارکپور تشریف لائے، ان سے عرض کی گئی فتاویٰ رضویہ کی اشاعت کا کوئی انتظام ہوا؟ انہوں نے کہا تم لوگوں کے سوا کس سے اس کی توقع کی جا سکتی ہے۔ اس کرامات آثار جملے نے دلوں میں ہمت اور عزائم میں استواری پیدا کی اور دار العلوم اشرفیہ کی رہنمائی میں کام ہوا اور دار الاشاعت کی بنیاد رکھی گئی۔(فتاویٰ رضویہ جلد سوم)
علامہ بلیاوی رحمه الله نے اپنی محنت و مشقت سے اپنی حیات میں ہی فتاویٰ رضویہ جلد سوم و چہارم کی اشاعت کر ڈالی اور جلد پنجم پریس کے حوالے کرکے 14 شوال المکرم 1391ھ (1971ء) کو الله تعالیٰ کو پیارے ہو گئے، آپ نے تصنیف و تالیف کا کوئی کام نہیں کیا، علامہ بلیاوی نے امام احمد رضا رحمه الله کی فتاویٰ رضویہ کی تحقیق و اشاعت کو ہی مقدم سمجھا۔
_______________________________________________