ٹائٹینک

برٹش ٹرانس اٹلانٹک مسافر لائنر، 1912 میں لانچ اور بنیاد رکھی گئی۔

آر ایم ایس ٹائٹینک یہ ایک برطانوی سمندری جہاز تھا جو 15 اپریل 1912 کو ساؤتھمپٹن، انگلینڈ سے نیو یارک سٹی، ریاستہائے متحدہ تک اپنے پہلے سفر کے دوران آئس برگ سے ٹکرانے کے نتیجے میں ڈوب گیا۔ اندازے کے مطابق 2,224 مسافروں اور عملے میں سے 1,496 کی موت ہو گئی، جس سے یہ واقعہ اس وقت کسی ایک جہاز کے ڈوبنے کا سب سے مہلک واقعہ تھا۔ جیسا کہ برطانوی جزائر، اسکینڈینیویا اور یورپ کے دیگر مقامات سے آنے والے سینکڑوں تارکین وطن جو ریاستہائے متحدہ اور کینیڈا میں نئی زندگی کی تلاش میں تھے۔ اس آفت نے عوام کی توجہ مبذول کروائی، بحری حفاظت کے ضوابط میں بڑی تبدیلیاں کیں، اور مقبول ثقافت میں ایک پائیدار میراث کو متاثر کیا۔

Titanic departing ساؤتھمپٹن on 10 April 1912
کیریئر (متحدہ مملکت برطانیہ عظمی و آئر لینڈ)
نام: RMS Titanic
مالک: White Star Line
عامل: White Star Line
بندرگاہ اندراج: متحدہ مملکت برطانیہ عظمی و آئر لینڈ کا پرچم Liverpool, UK
راستہ: ساؤتھمپٹن to نیو یارک شہر
با حکم: 17 September 1908
صانع: ہارلینڈ اینڈ وولف, بیلفاسٹ
لاگت: GB£1.5 million (£Error when using {{Inflation}}: |index=UK-GDP (parameter 1) not a recognized index. million in 2016)
یارڈ تعداد: 401
طریقہ نمبر: 400
آغاز تعمیر: 31 March 1909
پانی میں اتارا: 31 May 1911
تکمیل: 2 April 1912
پہلا سفر: 10 April 1912
سروس میں: 1912
سروس سے باہر: 15 April 1912
شناخت:
قسمت: Struck an iceberg at 11:40 pm (ship's time) 14 April 1912 on her maiden voyage and sank 2 h 40 min later on 15 اپریل 1912؛ 112 سال قبل (1912-04-15).
حیثیت: Wreck
عمومی خصوصیات
قسم اور درجہ: Olympic-class ocean liner
ٹنبار: 46,328 GRT
ہٹاؤ کی مقدار
  • نقاطی فہرست کا متن
52,310 tons
لمبائی: 882 فٹ 9 انچ (269.1 میٹر)
جہاز کاعرض: 92 فٹ 6 انچ (28.2 میٹر)
اونچائي: 175 فٹ (53.3 میٹر) (keel to top of funnels)
بحری ہٹاؤ: 34 فٹ 7 انچ (10.5 میٹر)
گہرائی: 64 فٹ 6 انچ (19.7 میٹر)
عرشے: 9 (A–G)
طاقت: 24 double-ended and five single-ended boilers feeding two reciprocating steam engines for the wing propellers, and a low-pressure turbine for the centre propeller;[3] output: 46,000 اسپی طاقت
قوت دھکیل: Two three-blade wing propellers and one three-blade centre propeller
رفتار: Cruising: 21 ناٹ (39 کلومیٹر/گھنٹہ؛ 24 میل فی گھنٹہ). Max: 23 ناٹ (43 کلومیٹر/گھنٹہ؛ 26 میل فی گھنٹہ)
گنجائش: Passengers: 2,435, crew: 892. Total: 3,327 (or 3,547 according to other sources)
Notes: Lifeboats: 20 (sufficient for 1,178 people)

حادثہ

ترمیم

اس حادثے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک ہزار پانچ سو بارہ افراد تھی۔ ٹائٹینک نے امریکی شہر نیویارک کے لیے اپنے سفر کا آغاز برطانوی بندرگاہساؤتھمپن

 
10 اپریل1913کو بندرگاہ پرسفر کے لیے تیار

سے کیا تھا اور یہ شمالی بحر اوقیانوس میں ڈوبا۔ اس کا ملبہ اب بھی سمندر میں تین یا چار ہزار میٹر گہرائی میں موجود ہے۔

اپنے سفر کے آغاز کے چوتھے اور پانچویں روز کی درمیانی شب اس میں سوار 1502 مسافر وں کی زندگی کا چراغ اس وقت گُل ہو گیا جب یہ سمندر کا بادشاہ برف کے گالے سے ٹکرا کر دوٹکڑے ہو گیا۔ لائف بوٹس کے ذریعے وائٹ سٹارلائن کمپنی کے ٹائی ٹینک کے صرف 722 مسافرزندہ بچ پائے۔ ان میں کمپنی کا مالک اسمے بھی شامل تھا جو خواتین اور بچوں کوڈوبتے جہاز میں چھوڑ کر ایک کشتی کے ذریعے نکل گیا۔ اس خود غرضی پر وہ پوری زندگی نفرت کا نشانہ بنا رہا۔ اسے ” ٹائی ٹینک کا بزدل “اور ”Bruce Ismay“ کہا جاتا تھا۔

مالک و کیپٹن

ترمیم

اسمے اکتوبر 1937ء کو گوشہ تنہائی میں چل بسا۔ دوسری طرف جہاز کا کپتان ایڈورڈ جان سمتھ بیشترعملے کے ساتھ خواتین اور بچوں کو بچانے کی کوشش میں خود ڈوب کر انسانیت پر احسان کر گیا۔ وہ آخری آدمی تھا جس نے جہاز سے چھلانگ لگائی۔ ایک آدمی آخری کشتی کی طرف تیرتے ہوئے ہوئے لپکا تو ایک مسافر نے کہا ”یہ پہلے ہی اوور لوڈ ہے“ اس پرتیراک پیچھے ہٹ گیا اور کہا "All right boys. Good luck and God bless you" یہ جہاز کا کپتان 62 سالہ ایڈورڈجان سمتھ تھا۔ دوسروں پر اپنی جاں نچھاور کرنے کے عظیم جذبے کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے اس کا مجسمہ سٹیفورڈ میں نصب کیا گیا ہے۔

موجودہ حالت

ترمیم

ٹائی ٹینک جہاز تک پہچنے کے لیے آپ کو تقریبا 4 کلومیٹر سمندر کے نیچے جانا ہو گا۔ جو ناممکن ہے کیونکہ سمندر میں آپ جتنی گہرائی میں جاتے ہیں۔ اتنا ہی پانی کا پریشر زیادہ ہوجاتا ہے۔ آج تک کوئی غوطہ خور ٹائی ٹینک تک نہیں پہنچ پایا۔ یہ ڈسکوری ایک غوطہ خور گاڑی کے ذریعے ٹائی ٹینک کے ڈوبنے کے تقریبا 70 سال بعد ممکن ہو پائی۔ غوطہ خور حضرات اس جہاز کے ملبے کے سامان نکال کر بڑی قیمت میں بیچ دیتے ہیں اگرچہ یہ ایک جرم ہے لیکن اس سے متعلق کئی واقعات سامنے آئے ہیں۔

جہاز ڈوبنے کی وجہ

ترمیم

اب ایک نئی تحقیق میں عندیہ دیا گیا ہے کہ 14 اپریل 1912 کی شب زمین کے مقناطیسی میدان میں عارضی انتشار ٹائٹینک کے حادثے کا باعث بنا۔ جریدے ویدر میں شائع ہونے والی یہ تحقیق ایک موسمیاتی ماہر میلا زنکووا کی جانب سے کی گئی۔ عینی شاہدین نے برفانی تودے سے ٹائٹینک کے ٹکرانے کے بعد مضبوط ناردرن لائٹس کو آسمان پر دیکھا تھا۔آر ایم ایس کارپیتھا کے سیکنڈ آفیسر جیمز بسیٹ (وہ بحری جہاز جس نے 15 اپریل کو علی الصبح ٹائٹینک کے 705 مسافروں کو بچایا تھا) نے 14 اپریل 1912 کی رات کو اپنی لاگ میں لکھا تھاآسمان پر چاند نہیں تھا، مگر ناردرن لائٹس کی روشنی چاندنی کی طرح جگمگا رہی تھی۔[4]

ٹائٹینک کے حادثے میں بچ جانے والوں نے بھی صبح 3 بجے کے وقت اپنی لائف بوٹس میں آسمان پر ان روشنیوں کا ذکر کیا تھا۔ اس طرح کی روشنیاں سورج کی جانب سے تیز رفتار ذرات کے سیلاب کے اخراج کے نتیجے میں پیدا ہونے والی شمسی طوفان سے بنتی ہیں۔ جب یہ ذرات زمین کے ماحول سے ٹکراتے ہیں تو زمینی ماحول کی گیسز کو توانائی ملتی ہے جس سے وہ سبز، سرخ، جامنی اور نیلے رنگ میں جگمگانے لگتی ہیں۔یہ شمسی ذرات زمین کے برقی اور مقناطیسی سگنلز میں مداخلت بھی کرتے ہیں جس سے برقی ڈیوائسز کے افعال متاثر ہوتے ہیں۔اس تحقیق میں یہ خیال پیش کیا گیا ہے کہ یہ شمسی طوفان اتنا طاقتور تھا جو اس مقام پر ناردرن لائٹس کا باعث بنا جہاں ٹائٹینک برفانی تودے سے ٹکڑایا تھا۔اس شمسی طوفان کے نتیجے میں اس کے مقناطیسی کمپاس اور جہاز کا الیکٹریکل ٹیلی گراف متاثر ہوئے تھے۔[5]

شمالی بحر اوقیانوس میں برفانی تودوں کے حوالے سے وہاں سفر کرنے والے دیگر بحری جہازوں کی معلومات سے آگاہ رہنے کے لیے ٹائٹینک کے کپتان ایڈورڈ جون اسمتھ نے حکم دیا تھا کہ زیادہ خطرناک علاقے میں جانے سے گریز کیا جائے۔

مگر تحقیق میں بتایا گیا کہ اس شمسی طوفان کے نتیجے میں جہاز کی سمت میں کمپاس کی خرابی کے نتیجے میں معمولی تبدیلی آئی اور خطرناک برفانی علاقے میں جانے سے بچنے کی بجائے وہ بحری جہاز سیدھا اس طرف چلا گیا۔ اس خیال سے ٹائٹینک کے سانحے کے ایک اور پہلو کی وضاحت بھی ممکن ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ڈوبتے ہوئے جہاز سے مدد کی درخواست پر دیگر بحری جہازوں نے پہلے غلط سمت میں تلاش کی اور بعد میں درست جگہ پر پہنچے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ شمسی مداخلت ہی امداد کی کوششوں میں رکاوٹ بھی بنی، جب کپتان کو اندازہ ہو گیا کہ ٹائٹینک کو ڈوبنے سے بچایا نہیں جا سکتا تو انھوں نے 2 ریڈیو آپریٹرز کو مدد کے سگنل قریبی جہازوں کو بھیجیں۔آر ایم ایس بالٹک جو ان جہازوں میں سے ایک تھا، جس نے مدد کی کال پر جواب دیا، کے عملے نے بتایا کہ اس رات ریڈیو سگنلز بہت عجیب تھے اور بیشتر پیغامات پڑھے نہیں جاسکے اور ٹائٹینک کا جواب کبھی مل نہیں سکا۔[6]

حوالہ جات

ترمیم
  1. "Titanic History, Facts and Stories"۔ Titanic Museum Belfast۔ 06 جنوری 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 اکتوبر 2018 
  2. "Titanic Centenary"۔ Newcastle University Library۔ 06 جنوری 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 اکتوبر 2018 
  3. Beveridge & Hall 2004, p. 1.
  4. مدثر بھٹی۔ "https://jtnonline.com/%d9%b9%d8%a7%d8%a6%d9%b9%db%8c%d9%86%da%a9-%da%88%d9%88%d8%a8%d9%86%db%92-%da%a9%db%8c-%d9%88%d8%ac%db%81/24599/international/"۔ jtnonline.com۔ 17 اکتوبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ  روابط خارجية في |title= (معاونت)
  5. مدثر بھٹی بھٹی۔ "https://sirfurdu.com/archives/30840/%d9%b9%d8%a7%d8%a6%d9%b9%db%8c%d9%86%da%a9-108-%d8%b3%d8%a7%d9%84-%d8%a8%d8%b9%d8%af/international/"۔ 26 اکتوبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ  روابط خارجية في |title= (معاونت)
  6. مدثر بھٹی۔ "ٹائٹینک کے ڈوبنے کی بڑی وجہ 108 سال بعد سامنے آگئی"۔ 26 اکتوبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ