ٹرانس جین یا ٹرانسجین سے مُراد ہے وراثوں کا باہمی تبادلہ۔ یعنی وراثوں کا ایسا تبادلہ جو ایک نوع سے کسی دوسری نوع کے درمیان (تجربہ گاہ میں) کیا جائے۔ ایسی دو انواع کا آپس میں کسی بھی قسم کا قریبی ربط ہونا ضروری نہیں ہے۔ ایک جرثومے اور ایک مینڈک کے درمیان بھی وراثوں کا تبادلہ کیا جا سکتا ہے۔ سائنسی طور پر یہ بات مسلمہ حیثیت رکھتی کہ جرثومہ ایک اکائی والی جان دار شے ہے جبکہ میڈک ایک کئی اکائیوں کا جاندار ہے۔ لیکن پھر بھی مینڈک کی خصوصیات کو جراثیم میں یا جراثیم کی خصوصیات کو مینڈک میں آسانی سے منتقل کیا جا سکتا ہے۔ اس طزز کی منتقلی کو ہی ’’ٹرانس جین‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس وقت ترقی یافتہ دنیا کے دو بڑے ادارے ’’ٹرانس جین‘‘ پر تحقیق میں بہت زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں۔ ایک فوج اور دوسری دوا سازی کی صنعت۔ امریکن ملٹری اس وقت ’’ٹرانس جینک ریسرچ‘‘ کو فنڈ فراہم کرنے والے سر فہرست تین اداروں میں شامل ہے۔ اس سلسلے میں امریکی فوج کا ادارہ ’’ڈارپا‘‘ پیش پیش ہے۔ ڈارپا (DARPA) سے مراد ہے، ’’ڈیفینس ایڈوانس ریسرچ پراجیکٹس ایجنسی‘‘۔ ڈارپا اب تک، فوج کے مقاصد کے لیے کئی کامیاب تجربے چکی ہے۔ انھوں نے ایک بکری ڈیزائن کی ہے جس کے ڈی این اے کے ساتھ مکڑی کا ڈی این اے ملایا گیا ہے۔ ہم اِس ٹرانس جینک گوٹ کو ’’سپائڈر گوٹ‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس بکری کی پیداوار سے اُن کا مقصد سپائیڈر سلک کا حصو ہے۔ سپائیڈر سِلک جو مکڑی اپنے لعاب سے بناتی ہے، اِس تجربہ سے قبل صرف فوج کے لعاب سے ہی حاصل کیا جاتا تھا۔ یہ دنیا کا مضبوط ترین دھاگا ہے جو نہ صرف ہر شے سے ہلکا ہے بلکہ اس کی قوتِ برداشت اور لچک بھی دنیا کے ہر سِلک سے بہتر ہے۔ بکری کے ساتھ مکڑی کے جینز کا اس طرح تبادلہ کیا گیا کہ ڈیزائن شدہ بکریاں اب ایسا دودھ دیتی ہیں جس میں ایک اضافی پروٹین سپائڈر سلک فراہم کرتی ہے۔ جو سِلک مکڑیوں سے حاصل کیا جاتا تھا اب وہ بکری کے دودھ سے حاصل کیا جا رہا ہے اور یوں امریکی فوج نے اپنے لیے نئے، ہلکے پھلکے بُلِٹ پروف جیکٹس، نئے پیراشُوٹس، نئے رسّے، نئے بیگز اور نئے جال (کارگو نیٹس) بنالیے ہیں جو بڑے سے بڑے بوجھ گرادینے پر بھی نہیں ٹوٹتے۔ چنانچہ یہ ایک ثبوت ہے، اس بات کا کہ مختلف انواع کے ڈی این اے کے مختلف ٹکڑے کاٹ کر ایک دوسرے میں یوں لگائے جا سکتے ہیں جیسے ہم دو مختلف درختوں کی الگ الگ قلمیں آپس میں جوڑ کر ایک تیسرا نیا درخت اپنے گھر میں پیدا کر لیتے ہیں۔[1]

نقصانات ترمیم

وراثیاتی طور پر ترمیم شدہ پودوں کے استعمال کے بہت سے نقصانات بھی ہیں ان میں جو پروٹین پیدا ہوتی ہے وہ انسان کے جسم میں جا کر بہت سے بیماریوں کی وجہ بن سکتی ہیں۔ ان کے استعمال سے خوراک کی الرجی بھی جنم لے رہی ہے جو بچوں پر جان لیوا طریقوں سے اثراندز ہو رہی ہے۔[2]

حوالہ جات ترمیم