ٹرانس جینڈر پرسنز ایکٹ
اس مضمون یا قطعے کو خواجہ سرا افراد ( تحفظ حقوق) ایکٹ ۔ 2018ء میں ضم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ |
ٹرانس جینڈر پروٹیکشن ایکٹ میں خواجہ سراؤں کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ خود اپنی جنس کی شناخت کر سکتے ہیں اور اسے تبدیل کروا سکتے ہیں۔
نادرا سمیت تمام سرکاری ادارے اس بات کے پابند ہیں کہ خواجہ سرا اپنی جس شناخت کو چاہیں وہ ہی ان کے شناختی کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس اور پاسپورٹ وغیرہ پر درج کی جائے گی۔
ایکٹ میں بحیثیت پاکستانی شہری ان کے تمام حقوق تسلیم کیے گئے ہیں۔ انھیں ملازمتوں، تعلیم حاصل کرنے اور صحت کی سہولتوں تک فراہمی کو قانونی حیثیت دی گئی جبکہ وراثت میں ان کا قانونی حق بھی تسلیم کیا گیا ہے۔
خواجہ سراؤں کو کوئی سہولت دینے سے انکار اور امتیازی سلوک پر مختلف سزائیں بھی تجویز کی گئی ہیں۔
اس ایکٹ میں خواجہ سرا کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ تین طرح کے ہو سکتے ہیں: پہلے نمبر پر انٹر سیکس خواجہ سرا ہیں، جن کی تعریف کچھ یوں کی گئی ہے کہ ان میں مردوں اور خواتین دونوں کی جینیاتی خصوصیات شامل ہوں یا جن میں پیدائشی ابہام ہو۔
دوسرے نمبر پر ایسے افراد ہیں، جو پیدائشی طور پر مرد پیدا ہوتے ہیں مگر بعد میں اپنی جنس کی تبدیلی کے عمل سے گزرتے ہیں۔ تیسرے نمبر پر ایسے لوگ ہیں، جو پیدائش کے وقت کی اپنی جنس سے خود کو مختلف یا متضاد سمجھتے ہوں۔
قمر نسیم خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے کام کرتے ہیں اور مذکورہ قانون کے حوالے سے مہم چلانے والوں میں بھی شامل ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’انٹر سیکس سے مراد پیدائشی مخنث افراد ہیں۔ دوسرے نمبر پر ان مردوں کی تشریح کی گئی ہے جو اپنے جنسی اعضا کی طبی طریقے سے ترمیم کرواتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ تیسرے نمبر پر ایسے افراد ہیں جو اپنی پیدائش کی جنس یا صنف سے متضاد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ’جیسے پیدائشی لڑکا دعویٰ کرے کہ وہ لڑکی ہے یا پیدائشی لڑکی دعویٰ کرے کہ وہ لڑکا ہے۔‘[1]
پاکستان کی قومی اسمبلی نے حال ہی میں ستمبر 2020ء کو ٹرانس جینڈر رائٹس ایکٹ منظور کیا ہے جس میں خواجہ سراؤں کے تحفظ، انھیں مساوی حقوق، تعلیم، صحت کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی، قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ پر اپنی جنس خواجہ سرا لکھوانے، ووٹ اور الیکشن لڑنے کا حق دیا گیا ہے تاہم بعض مذہبی جماعتوں کا مؤقف ہے کہ یہ بل دراصل ملک میں ہم جنس پرستی کو جائز اور قانونی تحفظ دینے کی کوشش ہے۔[2]