پازیگی قتل عام میانمار 2023ء

پازیگی قتل عام 11 اپریل 2023ء کو میانمار کی فضائیہ کی طرف سے 92 میل (148 کلومیٹر) کے فاصلے پر واقع ساگانگ ریجن کے کنبالو ٹاؤن شپ کے گاؤں پازیگی میں عام شہریوں کا قتل عام تھا۔ قتل عام کے دوران، میانمار کی فضائیہ نے پازیگی گاؤں میں عوامی انتظامیہ کے دفتر کی افتتاحی تقریب میں فضائی حملوں کا ایک سلسلہ شروع کیا۔[1] میانمار میں 2021ء میں اقتدار پر قبضے کے بعدیہ سب سے مہلک ترین حملہ تھا جس کے نتیجے میں کم از کم 120 افراد ہلاک ہوئے .[2][3]

Pazigyi massacre
بسلسلہ میانمار خانہ جنگی
جائے قتل عام is located in میانمار
جائے قتل عام
جائے قتل عام
جائے قتل عام (میانمار)
مقامپازیگی، ساگانگ ریجن
تاریخ11 اپریل 2023ء
ہلاکتیں120 ہلاک

پس منظر ترمیم

1 فروری 2021ء کو میانمار کی مسلح افواج نے بغاوت کی اور نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کی زیر قیادت جمہوری طور پر منتخب حکومت کو معزول کر دیا۔ اس کے فوراً بعدفوج نے اسٹیٹ ایڈمنسٹریشن کونسل (SAC) قائم کی اور قومی ہنگامی حالت کا اعلان کیا۔ اس اعلان کے بعد پورے ملک میں عام شہریوں نے فوجی قبضے کے خلاف مزاحمت کے لیے بڑے پیمانے پر احتجاج کیا۔ مئی 2021ء تک سویلین کی زیرقیادت مزاحمت SAC کے خلاف خانہ جنگی بڑھ گئی تھی، جو سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں تھی۔ پازیگی روایتی بامر بدھ مت کے گڑھ میں واقع ہے جو فوجی حکمرانی کے خلاف تیزی سے مزاحمت کے گڑھ کے طور پر ابھرا۔ پازیگی تقریباً 100 گھرانوں کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے، جو ساگانگ خطے میں واقع ہے جس کی سرحد ملک کے دوسرے بڑے شہر منڈالے سے ملتی ہے[4]۔ اپریل 2023 ءکے اوائل میں میانمار کی فوج کے دستوں نے ساگانگ ریجن میں، جہاں پازیگی واقع ہے مقامی مزاحمت کو دھمکانے اور دبانے کے لیے دیہاتوں کو جلا یا چھاپے مار کر دیہاتیوں کو قتل کیا اور ہزاروں لوگوں کو ان کے گھروں سے نکال کر فوجی کارروائی کا آغاز کیا۔ 23 فروری تک مارشل لاء کے تحت رکھی گئی 50 بستیوں میں سے 14 ساگانگ ریجن میں واقع تھیں۔[5]

واقعہ ترمیم

11 اپریل 2023ء کو مظاہرین عوامی دفاعی فورس کے انتظامی دفتر کے افتتاح کا جشن منانے کے لیے پازیگی میں جمع ہوئے۔ جشن کے کچھ دیر بعد لڑاکا طیارروں نے اس علاقے پر بمباری کی، [6] جس کے نتیجے میں قریبی گولہ بارود اڑ گیا ہلاکتیں واقع ہوئیں۔ [7] اس کے تھوڑی دیر بعد ایک ہیلی کاپٹرنے نیچے کے اہداف پر اندھا دھند فائرنگ کی۔ [6] 11 اپریل کو رات گئے جنتا کے ترجمان، میجر جنرل زو من تون نے تصدیق کی کہ حملہ ہوا ہے۔ لیکن انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ کتنے لوگ مارے گئے ہیں۔[8]

بین الاقوامی رد عمل ترمیم

11 اپریل کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے ایک بیان جاری کیا جس میں انھوں نے حملے کی شدید مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ ذمہ داروں کا احتساب کیا جائے۔ [9] امریکی محکمہ خارجہ نے فضائی حملوں پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے میانمار کی حکومت سے خوفناک تشدد کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ میانمار میں انسانی حقوق کی صورت حال پر اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے ٹام اینڈریوز نے کہا کہ "معصوم لوگوں کے خلاف میانمار کی فوج کے حملے، بشمول ساگانگ میں آج کے فضائی حملے، عالمی بے حسی اور انھیں ہتھیار فراہم کرنے والوں کی وجہ سے ممکن ہے"۔[10]

حوالہ جات ترمیم

  1. Richard C. Paddock (11 April 2023)۔ "Airstrike in Rebel-Held Region of Myanmar Kills at Least 100"۔ The New York Times 
  2. "Myanmar military confirms air raid that killed dozens in Sagaing"۔ الجزیرہ نیوز۔ 12 اپریل 2023۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اپریل 2023 
  3. "Myanmar airstrike on civilians sparks global outcry as witnesses describe attack"۔ دی گارڈین۔ 12 اپریل 2023۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اپریل 2023 
  4. "Myanmar: UN condemns deadly military airstrike on crowd of civilians"۔ ِیو این۔ 12 اپریل 2023۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اپریل 2023 
  5. "At least 100 killed in air strike by Myanmar junta on Pazigyi village"۔ انڈیا ٹو ڈے۔ 12 اپریل 2023۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اپریل 2023 
  6. ^ ا ب Grant Peck (11 April 2023)۔ "Airstrikes on Myanmar village feared to have killed 100"۔ AP NEWS (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اپریل 2023 
  7. Richard C. Paddock (11 April 2023)۔ "Airstrike in Rebel-Held Region of Myanmar Kills at Least 100"۔ The New York Times۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اپریل 2023 
  8. "Myanmar confirms deadly air strike that is feared to have killed 100"۔ TRT (بزبان انگریزی)۔ 12 April 2023 
  9. "UN Secretary General and rights chief condemn Pazigyi Village massacre"۔ Mizzima۔ 11 April 2023 
  10. Helen Regan,Sandi Sidhu,Salai TZ,Anna Coren (12 April 2023)۔ "Screaming people and bodies everywhere: The horrific aftermath of Myanmar junta airstrike that killed 100"۔ CNN (بزبان انگریزی)