تحریک پاکستان کا باقاعدہ آغاز پاکستان ڈیکلیریشن سے ہوا تھا جب 28جنوری 1933ء کو چوہدری رحمت علی ؒنے اپنی مشہور اشاعت Now Or Never کے ذریعے مسلمانانِ برصغیر کے لیے نہ صرف علاحدہ وطن کا باقاعدہ مطالبہ پیش کیا بلکہ پاکستان کا نام اور نقشہ بھی پیش کیا ۔ اسی سال چوہدری رحمت علی نے پاکستان نیشنل موومنٹ کے نام سے تحریک پاکستان کا باقاعدہ آغاز بھی کر دیا تھا۔[1] [2][3] [4]اس سے قبل گول میز کانفرنسز کے دور ان چوہدری رحمت علی نے مسلم لیگ کے قائدین سے مل کر علاحدہ مسلم ریاست کا مطالبہ کرنے پر زور دیا تھا جبکہ گول میز کانفرنسز کا واحد ایجنڈا انڈین فیڈریشن ( متحدہ وفاق) کے لیے آئین کی تشکیل تھا جس سے مسلم لیگی مندوبین بھی اتفاق کر رہے تھے ۔ حسین زبیری تحریر کرتے ہیں : ’’چودھری صاحب نے گول میز کانفرنسز کے دوران مسلم مندوبین سے الگ الگ ملاقاتیں کیں اور ان پر یہ بات واضح کی کہ انڈین فیڈریشن قبول کر لینے سے مسلمانوں کی انفرادیت ختم ہو جائے گی اور آپ اللہ اور رسول ﷺ کے سامنے جواب دہ ہوں گے لہٰذا انڈین فیڈریشن کو مسترد کرکے شمال مغربی وطن کے لیے ایک الگ وفاق کا مطالبہ کریں ۔‘‘ لیکن جب کسی بھی مسلم رہنما نے مطالبہ ٔ پاکستان کو تسلیم نہ کیا تو بالآخر چودھری رحمت علیؒ نے خود آگے بڑھ کر 28 جنوری 1933ء کو تاریخی پاکستان ڈکلیئریشن Now or Neverکے ذریعے مسلمانان برصغیر کو یہ باور کرایا کہ اب اگر ہم نے اپنی آزادی کے لیے علاحدہ وطن کا مطالبہ نہ کیا تو شاید کبھی نہ کر سکیں گے ۔

فائل:Pakistan Declaration.jpg
چوہدری رحمت علی ؒ نے 28 جنوری 1933ء کو پاکستان ڈیکلیریشن جاری کیا

تحریک پاکستان اور مسلم لیگ شروع میں دوبالکل علاحدہ بلکہ متضاد حقیقتیں تھیں ۔ تحریک پاکستان کا باقاعدہ آغاز چوہدری رحمت علی ؒکے پاکستان ڈکلیئریشن Now or Never اور پاکستان نیشنل موومنٹ سے ہوا ۔ جسے مسلم لیگ سمیت تمام بڑی جماعتوں نے ابتدا میں بالکل تسلیم نہیں کیا ۔ یہاں تک کہ جب یکم اگست 1933ء کو جوائنٹ پارلیمینٹری سلیکٹ کمیٹی نے چوہدری رحمت علی ؒ کے مطالبہ پاکستان کا نوٹس لیتے ہوئے ہندوستان وفد کے مسلم اراکین سے سوالات کیے تو جواباً سر ظفراللہ ، عبد اللہ یوسف علی اور خلیفہ شجاع الدین وغیرہ نے کہا کہ " یہ صرف چند طلبہ کی سرگرمیاں ہیں ، کسی سنجیدہ شخصیت کا مطالبہ نہیں جس پر توجہ دی جائے ۔" لیکن اللہ کو کچھ اور منظور تھا ۔ چوہدری رحمت علی کی’’ پاکستان نیشنل موومنٹ ‘‘سے تحریک پاکستان کا باقاعدہ آغاز ہو چکا تھا۔  چوہدری رحمت علیؒ نے مسلسل محنت اور جدوجہد سے لفظ پاکستان اور تحریک پاکستان کو عام کر دیا تھا ۔ اس ضمن میں چوہدری رحمت علی نے مختلف ملکوں کے دورے بھی کیے ، سفارتکاروں اور مندوبین سے ملاقاتیں بھی کیں اور اعلیٰ سفارتی ،سیاسی اور صحافتی شخصیات کو خطوط بھی لکھے، جس سے لفظ پاکستان اور تحریک پاکستان بہت جلد منظر عام پر آگئی ۔ دوسری طرف عوام میں چوہدری رحمت علیؒ کی تحریروں اور مسلسل اشاعتی مواد سے تحریک پاکستان کے حوالے سے جو ش و جذبہ بڑھ رہا تھا ۔ یہاں تک کہ پاکستان کا تصور اور پاکستان کا نام مسلمانان ہند کے دلوں میں رچ بس گیا ۔ یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ مسلمانانِ ہند میں "پاکستان کا مطلب کیا : لاالٰہ الا اللہ "کا نعرہ گونج اُٹھا ۔ پھر کیا تھا تحریک پاکستان کو مسلمانوں میں مقبولیت عام حاصل ہو چکی تھی ۔ ہر کوئی مستقبل میں ایک علاحدہ مسلم ملک "پاکستان" کا خواب آنکھوں میں سجائے ہوئے تھا ۔ لیکن اس وقت تک مسلم لیگ تحریک پاکستان سے بالکل لا تعلق رہی بلکہ اس کی مخالفت کرتی رہی ۔

جب 1937ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کو شکست ہوئی تو اس کے بعد مسلم لیگ کے پاس مسلمانوں کی اکثریت کی حمایت حاصل کرلینے کے سوا چارہ نہ رہا۔اس وقت تک تحریک پاکستان نے مسلمانان ہند کے دلوں میں اپنا مقام حاصل کر لیا تھا ۔ چنانچہ مسلم لیگ نے مسلمانوں کی اسی مقبول تحریک کو 1937ء کے انتخابات میں شکست کے بعد کانگریس پر دباؤ بڑھانے کے لیے استعمال کیا ۔ نواب سر محمد یامین خان جو قائد اعظم کے قریبی ساتھی اور مسلم لیگ کے سینیئر رہنما تھے ان کی کتاب نامۂ اعمال میں لکھا ہے کہ :

"یکم مارچ 1939ء کو ڈاکٹر ضیاء الدین نے مجھے، مسٹر جناح، مسٹر ظفراللہ خان، سید محمد حسین کو الہ آباد بلایا۔ دوپہر کے کھانے پر سید محمد حسین نے چیخ چیخ کر، جیسے ان کی عادت ہے، کہنا شروع کر دیا کہ چوہدری رحمت علی کی سکیم کہ پنجاب، کشمیر، صوبہ سرحد، سندھ، بلوچستان کو ملا کر بقیہ ہندوستان سے علاحدہ کر دیے جائیں۔ ان سے پاکستان اس طرح بنتا ہے کہ پ سے پنجاب، الف سے افغانیہ یعنی صوبہ سرحد، ک سے کشمیر، س سے سندھ اور تان بلوچستان کا اخیر ہے۔ چونکہ سید محمد حسین زور زور سے بول رہے تھے اس لیے مسٹرظفر اللہ خان نے آہستہ سے مجھ سے کہا کہ اس شخص کا حلق بڑا ہے مگر دماغ چھوٹا ہے۔ مسٹر ظفر اللہ خان ان کی مخالفت کر رہے تھے کہ یہ ناقابل عمل ہے، مسٹر جناح دونوں کے دلائل غور سے سنتے رہے اور پھر مجھ سے بولے کہ کیوں نہ ہم اس کو اپنا لیں اور اس کو مسلم لیگ کا نعرہ بنا لیں۔ ابھی تک ہماری عوام میں کوئی خاص مقبولیت نہیں ہے۔ اگر ہم اس کو اٹھائیں تو ہماری کانگریس سے مصالحت ہو سکے گی ورنہ وہ نہیں مانیں گے۔ "[5]

اس اہم میٹنگ نے مسلم لیگ کے آئندہ سالانہ اجلاس 23مارچ 1940ء کے خدو خال پہلے سے طے کر دیے تھے۔ اسی اجلاس میں مشہور قرارداد لاہور پیش کی گئی ۔ جسے انڈین میڈیا نے قرارداد پاکستان کا نام دیا ۔ حالانکہ قرارداد لاہور میں لفظ پاکستان استعمال نہیں ہوا تھا ۔ 7اپریل 1946ء کو دہلی کے تین روزہ کنونشن میں برطانیہ سے آنے والے کیبیننٹ مشن کے سامنے پاکستان کا نقشہ پہلی بار مسلم لیگ نے قرارداد کی صورت میں پیش کیاجس میں پنجاب ، سرحد ، سندھ ، بلوچستان ، بنگال اور آسام شامل تھے۔ حیرت کی بات ہے کہ اس میں کشمیر شامل نہ تھا ۔ حالانکہ چوہدری رحمت علی کی سکیم میں کشمیر شامل تھا ۔ اسی طرح چوہدری رحمت علی کی پاکستان سکیم میں بنگال اور پاکستان کو علاحدہ مملکتیں شمار کیا گیا تھا جو برطانوی ہند سے ایک ساتھ آزاد ہوں اور ہندو کے مقابلے میں اپنا اتحاد قائم کریں ۔

1947ء میں چوہدری رحمت علی کا وہ خواب پورا ہو گیا جو انھوں نے1915ء میں دیکھا تھا ۔ انھوں نے 1915ء میں بزم شبلی کی ایک تقریب میں کہا تھا :" انڈیا کا شمالی حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے ۔ ہم اسے مسلم علاقہ ہی رکھیں گے ۔ بلکہ ہم اسے ایک مسلم ملک بنائیں گے ۔"[6]

  1. چودھری رحمت علی مصنف خورشید کمال عزیز
  2. ہسٹری آف آئیڈیا آف پاکستان
  3. Now or Never
  4. Father Land of the Pak Nations
  5. نامہ اعمال مصنف نواب سر محمد یامین خان
  6. چوہدری رحمت علی کون تھے (محمد شریف بقا)