پرنامی مندر، ملکہ ہانس پاکپتن
پرنامی مندر، ملکہ ہانس پاکپتن
پاکپتن سے صرف 18 کلومیٹر کی فاصلے پر مشہور تاریخی قصبہ ملکہ ہانس واقع ہے۔ اس قصبے کی وجہ شہرت وہ حجرہ ہے جہاں وارث شاہ نے ہیر لکھی تھی۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ملکہ ہانس میں ایک اور بھی تاریخی عمارت ہے جو اپنی قدامت ، خوبصورتی اور اہمیت کی وجہ سے مشہور ہے اور کبھی متحدہ برصغیر کی اہم ترین جگہ ہوتی تھی۔ جب وارث شاہ ملکہ ہانس میں اپنی ہیر لکھ رہے تھے اسی زمانے میں پرنامی مندر اپنی شہرت کی بلندیوں پر تھا۔ قدیم تاریخ کی مناسبت سے ملکہ ہانس میں ایسی بہت سی قدیم عمارتیں مخدوش حالت میں موجود ہیں جو کبھی اقلیتی عبادت گاہ یا مذہبی رسومات کے لیے استعمال کی جاتی تھیں۔ انہی میں سے ایک مسجد وارث شاہ کی پچھلی گلی میں واقع پرنامی مندر ہے۔ مسجد دیکھنے کے بعد ہم گلیوں میں سے ہوتے ہوئے مندر کے سامنے جا کھڑے ہوئے۔ ایک بہت بڑا پرانے طرز کا لکڑی کا دروازہ تھا۔ جو بند تھا۔ دروازہ بار بار کھٹکھٹانے پر کافی دیر بعد ایک چھوٹا بچہ آیا جس نے نہیں نہیں کی گردان لگادی۔ اسے پیار سے سمجھایا لالچ دیا کہ بہت دور سے آئے ہیں اندر آنے دو چند منٹ کیلے مندر دیکھنا ہے۔ اتنے میں اندر سے خواتین کی آواز آئی کہ اندر آنا منع ہے۔ مقامی دوست نے منت سماجت کی اور بڑی مشکل سے چند شرائط پر اندر آنے کی اجازت ملی کہ تصویر نہیں کھینچنی اور اس کی حالت بارے کسی سے بات نہیں کرنی۔ میں نے میزبان سے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ اندر رہائش ہے اور انھوں نے مندر کا برا حال کر دیا ہے۔ جس کی وجہ سے یہ تصویریں کھینچنے سے منع کرتے ہیں۔ خیر اندر گئے۔
یہ مندر تقریباً 4 سے 5 سو سال تک پرانا ہے۔ اس مندر کی طرز تعمیر اور نقش و نگار پاکستان میں موجود تمام پرانے مندروں سے یکسر مختلف ہے۔ یہاں بہت سارے قد آور بت ہوتے تھے جن میں ایک بارش کا دیوتا ، دوسرا صحت کا دیوتا اور تیسرا کھانے کا دیوتا ہوتا تھا۔ جہاں دور دراز سے ہندو اپنی عبادت کیلے آتے تھے۔ ان دیوتاؤں کے علاوہ بہت ساری ایستادہ دیویاں بھی تھیں جن کے لباس و نقوش قدرے یونانی ہیں۔ دیوتا تو آج نہیں ہیں مگر یہ یونانی دیویاں آج بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہیں۔ پرنامی مندر ایک بورڈنگ اسکول ہوتا تھا جہاں ہندو ازم کے اشلوکوں کی سنسکرت میں تعلیم دی جاتی تھی تقسیم کے بعد ہندوؤں کے ہجرت کرجانے سے اسکول ختم ہو گیا۔ تقریباً 70 ایکڑ کی وسیع رقبے پر پھیلے ہوئے پرنامی مندر کی مرکزی عمارت میں ایک سرنگ بھی تھی۔ جو عرصے سے بند ہونے کے باعث مخدوش حالت میں ہے اور اس کے متعلق مزید معلومات بھی دستیاب نہیں ہیں۔ پرنامی مندر کا پروہت اپنے وقت کی اہم شخصیت ہوتی تھی اور یہ مندر ہندو مت کے مرکزی ناتھ مندر کمیٹی سے منسلک ہوتا تھا۔ تقسیم کے بعد انڈیا کا ایک وزیر ایچ کے ایل بھگت یہاں آیا تھا کیونکہ اس کا والد یہاں کا سب سے بڑا پروہت ہوتا تھا۔
دہائیوں سے بند پرنامی مندر اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ مندر کی زمین پر مسلسل قبضہ ہورہا ہے۔ مندر کی مرکزی عمارت جو کبھی بند ہوتی تھی اب محکمہ اوقاف کی ملی بھگت سے اس میں ایک خاندان رہائش پزیر ہے۔ جن کی بھینسیں اور بکریاں بھی ساتھ ہی رہتی ہیں۔ مندر کی خاص عمارت کے ساتھ توڑ پھوڑ جاری ہے۔ پہلے سیاحوں کے آنے پر گھر والے مندر دیکھنے کی اجازت دے دیتے تھے۔ مگر اب ہر طرح کے سیاحوں کیلے داخلہ بند کر دیا گیا۔ جس کی بنیادی وجہ مندر کے اندر رہنے والی فیملی نے کافی توڑ پھوڑ کی ہے اور دوسری منزل پر ایستادہ دیویوں کو آہستہ آہستہ توڑا جارہا ہے۔ عمارت کے نقش ونگار کو ختم کر دیا گیا ہے۔ اور مندر کی باریک ٹائل کو اکھاڑ کر ملحقہ کمروں کی مرمت کی جاری ہے۔ جبکہ ساتھ کی عمارتوں میں اب لوگ رہائش پزیر ہو گئے ہیں۔ جس سے مرکزی عمارت کو کافی نقصان پہنچا رہا ہے۔ میں پانچ سال پہلے جب آیا تھا۔ اور اب کی بار عمارت زیادہ تباہ حال نظر آئی۔ اگر یہی حال رہا تو شائد آئندہ پانچ دس سالوں میں یہ مندر صرف کتابوں میں باقی رہ پائے گا۔ محکمہ آرکیالوجی ، محکمہ وقف املاک اور محکمہ اوقاف کھنڈر ہوتے اس ورثے کو کوشش کرکے بچا سکتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ فوری طور پر مندر کے اندر رہائش پزیر خاندان کو باہر نکال کر مرمت کرکے محکمہ اوقاف اسے براہ راست اپنے کنٹرول میں کرے۔