ضلع نوشہرہ سے تعلق رکھنے والے پشتو زبان کے نامور سکالر، شاعر اور ادیب

ڈاکٹر پرویز مہجور خویشگی کا اپنا نام پرویز خان جب کہ ادبی نام پرویز مہجور تھا۔ وہ 14 جنوری 1952ء کو زرین خان کے ہاں نوشہرہ کے علاقے خویشگی میں پیدا ہوئے تھے وہ ابھی چار ہی سال کے تھے کہ ان کے والد کو کسی نے قتل کر دیا ۔ پرویز مہجور نے میٹرک ہائی اسکول سے 1967ء میں کیا اس کے بعد نوشہرہ کالج میں داخلہ لیا اور وہاں سے انٹر میڈیٹ کا امتحان 1969ء میں پاس کیا ان دنوں صدر ایوب خان کے خلاف تحریک چل رہی تھی وہ اس کا حصہ رہے، 6 ستمبر 2020ء کو وفات پاگئے ، پچھلے کچھ عرصے سے علیل تھے اور پشاور کے ایک نجی ہسپتال میں زیر علاج تھے۔ ۔ان کی نماز جنازہ خویشگی بالا میں ادا کی گئی اور بعد ازاں آبائی قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا،[1]

تصانیف ترمیم

تدوین اور تحقیق کے کام میں پروفیسر پرویز مہجور نے بارہ کتابیں لکھی ہیں جن میں شاد محمد کا دیوان، ‘د پختو ژبہ’ ڈاکٹر خیال بخاری کے ساتھ اشتراک میں، علی محمد مخلص کا دیوان تدوین، تحقیق اور تصحیح، ‘د ارزانی خویشکی کلیات’ پی ایچ ڈی تحقیقی مقالہ، ‘د مرزا خان انصاری دیوان تحقيق او تصحيح’ اور ان کے علاوہ روشانی تصوف پر تحقیق جو پشتو اکیڈمی سے شائع ہوئی ہے۔

‘رحمان فن اور شخصیت’ اکادمی ادبیات اسلام آباد، بچوں کے روایتی گیت اور گھریلو صنعتیں جو پشتو اکیڈمی پشاور اور لوک ورثہ اسلام آباد کے اشتراک سے شائع ہوئی ہے۔

اور حال ہی میں واصل روخانی کے دیوان کی تدوین، تحقیق اور تصحیح پشتو اکیڈمی کوئٹہ بلوچستان کی جانب سے اشاعت کے آخری مراحل میں ہے۔

حوالہ جات ترمیم