پینگوئن یا بطریق (Penguin) زمین کے جنوبی برفانی علاقوں میں پایا جانے والا ایک آبی پرندہ ہے۔ یہ تقریبًا اپنی آدھی زندگی پانی میں اور آدھی زمین پر گزارتا ہے-

(طیوریات)بِطْرِیق؛ پینگوئن؛ خاندان سفینی سی (Spheniscidae) سے تعلق رکھنے والے بے پرواز بحری پرندوں کی متعدد انواع میں سے کوئی ایک، جو زیادہ تر جنوبی قطب یا جنوبی قطب کے علاقوں میں محدود ہوتے ہیں، ان کے پر ہاتھوں کی طرح کے اور تیرنے کے لیے بہت موزوں ہوتے ہیں، ان کی چھوٹی ٹانگوں پر جھلی دار پاؤں پتواروں کا کام دیتے ہیں۔[1] پینگوئن منفرد، عجیب و غریب آبی پرندہ ہے۔ اسے اُردو اور عربی میں ’بطریق‘ کہتے ہیں۔ یہ قطب جنوبی میں پایا جاتا ہے، لیکن اس کی چند انواع و اقسام دُنیا کے دوسرے مقامات پر بھی پائے جاتے ہیں۔ اس خوبصورت پرندہ میں کئی خصوصیات پائی جاتی ہیں جس میں اس کے جسم پر لاتعداد پَر پایا جانا بھی شامل ہے۔ پینگوئن کے جسم پر ایک مربع اِنچ پر کم و بیش 70 پَر پائے جاتے ہیں اور یہ مخصوص انداز میں جمے رہتے ہیں۔ یہ پَر برفیلی ہواؤں اور ٹھنڈک کو روکنے کا اہم ذریعہ ہیں اور جسم کے درجہ حرارت کو اعتدال پر رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔ ان کے پَر واٹر پروف ہوتے ہیں۔ ان کے اگلے جوارع ’چپو‘ جیسے عضو \’Flippers\’ ہیں جبکہ پچھلے جوارع جھلی نما ساخت میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ یہ پرندہ 75 فیصد وقت پانی میں گزارتا ہے۔ ان کا تیرنا اور اُڑنا ایک جیسا لگتا ہے۔ یہ پانی میں 15 کیلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے تیرتے ہیں۔ پینگوئن کودتے نہیں بلکہ Bounce کرتے ہیں۔ ان میں تقریباً 6 فٹ تک اُچھلنے (باؤنس) کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ سال میں ایک بار ان کے پرانے پَروں کی جگہ نئے پَر آتے ہیں۔ ان کی قوتِ سماعت تیز ہوتی ہے۔ جب سوتے ہیں تو اپنے سر کو پروں میں چھپا لیتے ہیں۔ اس کی عمر 20 برس ہوتی ہے اور اس کا قد 4 فٹ تک ہوتا ہے۔ پینگوئن گوشت خور پرندہ ہے۔ مچھلیاں، جھینگوں کا شکار کرتا ہے۔ یہ پرندہ پانی کی بجائے برف کھاتا ہے۔ اس کا سر اور گردن سیاہ رنگ کے ہوتے ہیں جب کہ جسم سفید رہتا ہے۔ ہڈیاں ٹھوس اور مضبوط ہوتی ہیں۔ پانی میں وہ بہتر طور پر دیکھ سکتا ہے۔ اس پرندہ کو انسان دوست کہا جاتا ہے۔ یہ پتھروں کا گھونسلا بناتے ہیں۔ عام طور پر پینگوئن کو امن پسند آبی پرندہ کہا جاتا ہے، مگر گھونسلا بناتے وقت پتھروں کے لیے یہ آپس میں لڑتے ہیں۔ نر اور مادہ الگ الگ ہوتے ہیں۔ مادہ انڈے دیتی ہے اور نر مسلسل 65 دنوں تک کھائے پئے بغیر انڈے سیتا ہے۔ انڈوں میں سے جب بچے نکل آتے ہیں تو نر مخصوص آواز نکالتا ہے۔ اس آواز کو سن کر مادہ جو 65 دن قبل حصولِ غذا کے لیے نکل پڑی تھی، واپس اپنے نر اور بچوں کے پاس آجاتی ہے۔

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. آن لائن قومی انگریزی اُردو لُغت، ادارۂ فروغِ قومی زبان اسلام آباد پاکستان