آعظم گڑھ یوپی کے ایک مذہبی خاندان میں 1935 میں ایک در نایاب نے جنم لیا جس کا نام قنبر حسین رکھا گیا جو بعد میں نباض ادب ڈاکٹر پیام آعظمی کے نام سے مشہور ہوا ۔

بقول علامہ سید ذیشان حیدر جوادی پیام اعظمی کے اشعار لفظی بازیگری نہیں بلکہ فکر بیداری ہوتے ہیں وہ شعر کہ کے سامع کے حوالہ نہیں کرتے بلکہ شعر کے ذریعہ فکر کو سامع کے ذہن تک منتقل کرنا چاہتے ہیں، انھوں نے مختلف اصناف سخن کو پرانے ڈھانچوں میں پیش کرنے کی بجائے نئے سانچے بنانے کا عمل انجام دیا ہے۔


علامہ ذیشان حیدر جوادی اعلی اللہ مقامہ فرماتے ہیں کہ :

وہ بیک وقت ایک بہترین شاعر بھی ہیں اور ایک بہترین مفکر بھی۔ادھر ایک عرصہ سے انھوں نے شعری کام چھوڑ کے نثری کام شروع کیا ہے اور اس میں بھی وہی فکرانگیزی کا انداز برقرار رکھا ہے جو عام طور سے عصر حاضر کے مضمون نگاروں میں عنقا ہوتا جا رہا ہے۔

1990 میں انھوں امامیہ دارالاشاعت کی بنیاد رکھی اور ایک عرصہ کے بعد باقاعدہ طور پر دین و دانش رسالہ کا آغاز کیا جس میں موصوف کے معرکۃ الاراء مضامین نے قوم میں علمی اور فکری بیداری پیدا کردی جو قارئین کے لیے اسلامی حقائق و معارف کا ترجمان بنا آج ڈاکٹر پیام آعظمی انقلابی اور دینی فکر رکھنے والے پیر و جواں کے دلوں کی ڈھرکن بنے ہوئے ہیں۔

پیام آعظمی کی چند شاھکار کتابیں ہیں جو ان کی شہرت کا سبب بھی ہیں اور جدید نسل کے لیے ان کی علمی اور فکری شخصیت کے تعارف کا ذریعہ بھی

1.اسلام ہی کیوں

2.یا اولی الالباب


3.سوز و سلام

4.والعصر

5.والفجر

6.والقلم

7.ناطقہ سر بہ گریباں ہے