چندر بھان برہمن
چندر بھان برہمن اپنے افکار کے اعتبار سے وحدت ادیان کے مکتب فکر سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کی نظر میں کعبہ و بت خانہ، مسجد و مندر اور مسلمان و ہندو میں کوئی مذہبی فرق نہیں تھا۔ اس کے اس شعر پر ہنگامے کا ذکر تذکرہ نویسوں نے کیا ہے:
مرا دیست بکفر آشنا کہ چندیں بار۔ ۔۔۔ بکعبہ بردم و بازش برہمن آوردم[1]
ہندو ہونے کے باوجود مسلمان اساتذہ سے عربی و فارسی اور دینی تعلیم حاصل کرتا رہا۔ شاہ جہانی عہد میں معزز عہدوں پر فائز رہا۔
چندر بھان برہمن اور دارا شکوہ
ترمیماگر دیوان دارا شکوہ اور دیوان چندر بھان برہمن کا تقابلی مطالعہ کیا جائے تو متصفانہ افکار میں بہت مماثلت ملے گی۔ اسی جذباتی ہم آہنگی کی بنیاد پر دارا شکوہ نے اس کی خدمات شاہ جہاں سے مانگ لی تھیں۔ جب دارا شکوہ قندھار کی مہم پر روانہ ہوا تو چندر بھان برہمن اس کے مصاحب کی حیثیت سے اس کے ہمراہ تھا اور جب دارا شکوہ اس مہم سے ناکام واپس آیا تو لاہور میں بابا لال داس بیراگی اور دارا شکوہ کی ملاقات میں بھی ترجمان کی حیثیت سے یہی شامل تھا۔ اس ملاقات کے دوران گفتگو کو محفوظ کرنے اور پھر اس کا فارسی میں ترجمہ کرنے کا کام بھی اسی نے ہی کیا تھا۔
وہ اپنی تالیف منشات برہمن میں سرہند جانے کا ذکر بھی کرتا ہے کہ وہ وہاں بابا لال داس بیراگی سے ملا تھا جس کے پاس دور دراز سے لوگ آتے تھے۔[2]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ دیوان چندر بھان برہمن، مرتبہ محمد عبد الحمید فاروقی، گجرات، احمد آباد، 1967ء
- ↑ دیوان چندر بھان برہمن، مرتبہ محمد عبد الحمید فاروقی، گجرات، احمد آباد، 1967ء ص7