چنیوٹ کی تاریخ
اس مضمون یا قطعے کو چنیوٹ میں ضم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ |
تاریخ
ترمیماصل شہر دریائے چناب کے اُس پار آباد تھا جس کے نشانات فیصل آباد روڈ پر جھوک موڑ کے قریب دیکھے جا سکتے ہیں۔
"موجودہ شہر کی جگہ پہلے ایک قلعہ قائم تھا جب بھیرہ کے حاکم ماچھی خان نے چنیوٹ پر حملہ کیا تو قلعہ فتح کرنے کے بعد دریا عبور کر کے شہر کو آگ لگا دی اور قلعہ کے پاس نیا شہر آباد کر دیا۔ بعد ازاں ان کھنڈر پر جتہ جمال نامی بزرگ کا مزار بنا دیا گیا اور ان کے نام کی نسبت سے اس جگہ کو ٹبہ جتہ جمال یا ماڑی کہہ کر پُکارا جاتا ہے جہاں اب مقامی لوگوں نے قبرستان بنا دیا ہے۔ بعض اوقات قبریں کھودتے وقت اب بھی جلی ہوئی مٹی اور کوئلہ نکلتا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہاں کبھی شہر آباد تھا۔
سڑکوں میں دفن ہوتی چنیوٹ کی تاریخ
ترمیمچنیوٹ کے نواحی علاقے چناب نگر میں واقع پہاڑیوں کے سلسلے کو سرگودھا کے پہاڑی سلسلے کا ہی ایک حصہ مانا جاتا ہے۔ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ پہاڑیاں تاریخی اہمیت کی حامل ہیں جو اپنے اندر بہت سے تاریخی راز اور نوادرات سموئے ہوئے ہیں تاہم حکومتی عدم توجہ کے باعث اسمگلنگ مافیا بلا روک ٹوک ان قیمتی نوادرات کی چوری میں مصروف ہے۔دوسری طرف سرکاری سر پرستی میں پتھر کے حصول کے لیے کی جانے والی کٹائی اور بارود کے ذریعے ہونے والی توڑ پھوڑ سے بھی اس قدیم تاریخی ورثہ کو نقصان پہنچا ہے۔یاد رہے کہ 2005ء میں غیر سرکاری تنظیم چنیوٹ لوک کی جانب سے پہاڑیوں میں موجود قیمتی نقوش اور آثار کو بچانے کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا تھا جس کے بعد جسٹس شیخ عظمت سعید نے ان پہاڑیوں میں کرشنگ، بلاسٹنگ اور کسی بھی طور سے انھیں نقصان پہنچانے کے عمل پر بذریعہ سٹے آرڈر روک لگا دی تھی۔ان قدیم پہاڑوں پر موجود نشانات سے ماہرین آثار قدیمہ ابھی تک یہ اندازہ نہیں لگا پائے ہیں کہ یہ ہڑپہ تہذیب کی تحریر ہے یا پھر محض چٹانی نقوش اور اگر یہ کوئی خاص تحریر ہے تو کس اور کتنی پرانی تہذیب کی؟ ریٹائرڈ پروفیسر محمد حیات خوشاب کے علاقہ جوہر آباد کے رہائشی ہیں اور کتاب 'چٹانوں میں تاریخ' کے مصنف ہیں۔پروفیسر حیات کو خدشہ ہے کہ کہیں تحقیق سے قبل ہی قدیم تحریر کے حامل یہ پتھر، نوادرات مافیا چوری نہ کر لے یا یہ تحریریں قدرتی شکست و ریخت کے عمل سے ختم نہ ہو جائیں۔وہ بتاتے ہیں کہ انھوں نے نصف صدی قبل یہ نقوش دریافت کیے اور آج تک ان کو بچانے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں مگر جن آثار کو بین الاقوامی ورثہ قرار دیا جانا تھا انھیں ان کی نظروں کے سامنے بجری کا ڈھیر بنا کر سڑکوں میں دفن کر دیا گیا۔"ان پہاڑوں میں تاریخی اہمیت کے حامل پتھر موجود ہیں مگر افسوس کہ موٹروے کی تعمیر کے لیے چٹانوں کو توڑا گیا اور نوادرات کا ایک بڑا حصہ ضائع ہو گیا۔"ان کے مطابق چنیوٹ کی پہاڑیاں ہی وہ مقام ہیں جہاں سکندر اعظم کا بیڑا دریائے چناب کے بھنور میں پھنسا تھا، جس کے بعد سکندر نے یہاں قیام کیا۔انھوں نے بتایا کہ سکندر اعظم نے اپنی جنگی مہم کے دوران ان پہاڑوں کے اوپر سے ایک پختہ سڑک تعمیر کروائی تھی جسے سکندر کا درہ کہا جاتا تھا مگر کٹائی کے دوران اس درے کا آدھے سے زیادہ حصہ بارود کے ذریعے تباہ کر دیا گیا ہے۔"ابھی بھی چناب نگر میں چونگی نمبر تین کے قریب واقع پہاڑی پر اس درے کا باقی ماندہ حصہ موجود ہے لیکن دھماکوں کے باعث پہاڑ کی چوٹی تک جانے کے تمام راستے ختم ہو چُکے ہیں۔" پہاڑوں سے مختلف انواع کے قیمتی پتھر اور نوادرات ملی ہیں گورنمنٹ کالج تعلیم السلام چناب نگر میں تاریخ کے پروفیسر وقار حسین کا کہنا تھا کہ چنیوٹ میں قیام کے دوران سکندر اعظم کا گھوڑا بیماری کے باعث مر گیا جس کی یاد میں سکندر نے پہاڑ پر اس گھوڑے کا مجسمہ بنوایا تھا۔ان کے مطابق مقامی لوگ توہم پرستی کے سبب اس قدیم مجسمے سے منتیں مانگنے لگے، جس کے بعد 2005ء میں تاریخی اہمیت رکھنے والے اس مجسمہ کو چند افراد نے بارود کی مدد سے تباہ کر دیا۔ان کے بقول "دو دہائیاں قبل انہی پہاڑوں میں واقع چٹان پر ایک خاتون کا مجسمہ بھی نصب تھا جو پتھر توڑنے کے لیے کیے جانے والے دھماکوں کی نظر ہو گیا۔"انھوں نے مزید بتایا کہ ونوٹی والا دھرنگڑ کے علاقہ سے چند سال قبل بھینس نما مٹی کا مجسمہ ملا تھا جسے بعد ازاں محکمہ آثار قدیمہ نے اپنی تحویل میں لے لیا۔ان کا کہنا تھا کہ ان پہاڑوں پر تیز دھار آلے سے بنائے گئے ایسے نقوش ملے ہیں جن کے ذریعے سے پھول، گھڑ سوار اور جنگ کی منظر کشی کی گئی ہے۔"ان نقوش سے ثابت ہوتا ہے کہ ان پہاڑوں پر جنگیں بھی لڑی گئی ہیں اور یہاں مختلف ادوار میں جنگجو بادشاہ اور قبیلے پناہ لیتے رہے ہیں۔"ان کا مؤقف تھا کہ حکومت کو ان پہاڑوں کی سرپرستی لیتے ہوئے یہاں عملہ تعینات کرنا چاہیے تاکہ چنیوٹ کی تاریخ کو محفوظ بنایا جا سکے۔سُجاگ سے بات کرتے ہوئے محکمہ آثار قدیمہ سرگودھا کے ڈائریکٹر محمد ایوب کا کہنا تھا کہ چنیوٹ سے سرگودھا تک کے تمام پہاڑ تاریخی اہمیت کے حامل ہیں جنہیں محفوظ بنانے کے لیے محکمہ کی طرف سے کوششیں کی جا رہی ہیں۔ تاہم ان کے بقول فنڈز کی قلت اور عملہ کی کمی کے باعث محکمہ آثار قدیمہ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ "چنیوٹ کے یہ پہاڑ نوادرات کا خزانہ سمیٹے ہوئے ہیں جن سے اس علاقہ کی تاریخ اور لوگوں کے رہن سہن کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے مگر وسائل نہ ہونے کی وجہ سے فی الحال تحقیق کی بجائے انھیں محفوظ بنانے پر توجہ دی جا رہی ہے۔"