ڈائریکٹ ایکشن
برطانوی وزیر اعظم مسٹر ایٹلی نے 15مارچ1946ء کو برطانیہ کے ہاؤس آف کامنز میں کابینہ مشن کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے وقت بڑی رعونیت کے ساتھ کہا تھا کہ :
“We are mindful of the rights of the minorities. On the other hand we cannot allow a minority to place a veto on the advance of a majority”.
’’ہم اقلیتوں کے حقوق سے واقف ہیں- دوسرے ہاتھ پر، ہم اقلیت کو کسی بھی اکثریت کو آگے لانے کے لیے طاقت کے استعمال کی اجازت نہیں دے سکتے‘‘-
درج بالا اعلان اِس حقیقت کا کھلا ثبوث ہے کہ برطانوی استعمار مسلمانوں کو ایک الگ قوم اور اپنی جداگانہ مسلمان قومیت کی بنیادپر پاکستان کے قیام کی اجازت دینے سے انکاری ہے-برصغیر کے مسلمانوں کو اقلیت کی بجائے ایک جداگانہ، منفرد اور مہذب قوم علامہ اقبال (رحمۃ اللہ علیہ)نے قرار دیا تھا-اِسی محکم استدلال کی ہر آن تازہ تر تشریح قائد اعظم (رحمۃ اللہ علیہ)کے حصے میں آئی تھی-برصغیر میں مسلمانوں کی آزاد اور خود مختار مملکت کے اِس تصور کو آل انڈیا مسلم لیگ کا سیاسی پروگرام بنا کر مسلمانوں کو ایک عوامی جمہوری تحریک کے پرچم تلے جمع کر لیا تھا- ایسے میں برطانوی وزیر اعظم کی یہ دھمکی کہ وہ مسلمان ’’اقلیت ‘‘کو ہندو اکثریت کے مفادات پر ویٹو کا حق ہرگز نہ دیں گے قابل غور ہے-اِس پُرفریب جملے کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ برطانوی استعمار برصغیر کے مسلمانوں کو کسی صورت میں بھی پاکستان قائم کرنے کی اجازت نہ دے گا-برطانوی استعمار کی اپنے اِس مذموم مقصد کے حصول میں ناکامی صرف ایک شخص کے ایمان محکم اور ندرتِ کردار کا نتیجہ تھی-اِس عظیم شخصیت کو دُنیا قائد اعظم محمد علی جناح (رحمۃ اللہ علیہ) کے نام سے پہچانتی ہے-
قائد اعظم (رحمۃ اللہ علیہ)برطانوی استعمار کے مکر و فریب سے بھی آگاہ تھے اور اُس کی اندرونی کمزوریوں سے بھی خوب واقف تھے-اپنے ایک انٹرویو میں قائد اعظم (رحمۃ اللہ علیہ)نے کیبنٹ مشن کے عیار ترین اور طاقتور ترین رُکن سرپیتھک لارنس کو ایک ایسا مداری(that ingenious juggler of words) قرار دیا تھا جولفظوں کے گورکھ دھندوں سے فریب کے جال بننے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا-ایک برطانوی سیاسی مؤرخ لیونارڈ موزلے اپنی کتاب بعنوان ’’The Last Days of the British Raj‘‘ میں لکھتا ہے کہ قائد اعظم (رحمۃ اللہ علیہ)سے ملاقات کے تصور ہی سے کابینہ مشن کے ارکان کی جان جاتی تھی:
“Jinnah depressed them by his cold, arrogant, insistant demand for Pakistan or nothing. An encounter with Jinnah cast them down”.
’’جناح نے انھیں پاکستان یا کچھ نہیں کے پختہ، بلاسمجھوتہ اور مستقل مطالبے سے متاثر کیا- جناح کا سامنا انھیں کمزور کرتا تھا‘‘-
چنانچہ قائد اعظم (رحمۃ اللہ علیہ)نے مذاکرات کی میز پر بھی ہتھیار پھینک دینے کی بجائے دادِ شجاعت دینے کی حکمت عملی اپنائی-نتیجہ یہ کہ جب کابینہ مشن پلان منظر عام پر آیا تو کانگرسی حلقوں میں صفِ ماتم بچھ گئی- غُل مچا کہ ہم ’’ایک پاکستان‘‘ پر بھی تیار نہیں مگر آل انڈیا کانگریس کے لیڈر ابوالکلام آزاد نے ’’دو پاکستان‘‘ دے دیے ہیں-چنانچہ بلا تاخیر مولانا آزاد کو مسندِ صدارت سے ہٹا کر جواہر لال نہرو کو کانگرس کا صدر مقرر کر دیا گیا-پنڈت نہرو نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں کیبنٹ مشن پلان کے لفظ تو وہی رہنے دیے مگر معنی تبدیل کر کے رکھ دیے-حر ف و معنی کے اِس تصادم پر قائد اعظم (رحمۃ اللہ علیہ)کے ردِ عمل کو لیونارڈ موزلے درج ذیل لفظوں میں بیان کرتے ہیں:
“Mr. Jinnah reacted to Nehru's statement like an army leader who has come in for armistic discussion under a flag of truce and finds himself looking down the barrel of a cocked revolver”.
’’مسٹر جناح نے نہرو کے بیان پر ایسا رد عمل دیا جیسا کہ ایک فوجی جو مخالف سے کسی امن معاہدے کے جھنڈے تلے (دشمن)سے بات چیت کرنے آیا ہو اور خود کو(اپنے) لوڈ پستول کی طرف متوجہ پایا ہو‘‘-
جلد وہ وقت آ پہنچا جب قائد اعظم (رحمۃ اللہ علیہ)نے اپنی جیب سے بھرا ہوا پستول باہر نکالا اور برطانوی سامراج کے سینے پر تان دیا-انھوں نے اعلان کیا کہ اب ہم بند کمرے میں مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر وقت برباد کرنے کی بجائے زندگی کے کھلے میدان میں مسلمان قوم کی عوامی عدالت میں جائیں گے-چنانچہ 16اگست کو ڈائریکٹ ایکشن ڈے (راست اقدام کے آغاز کا دن) قرار دے دیا گیا- جولائی کے آخری ہفتے میں مسلم لیگ کونسل کے اجلاس منعقدہ بمبئی میں اپنے خطاب کے دوران قائد اعظم (رحمۃ اللہ علیہ)نے اعلان فرمایا کہ:
“All these prove clearly beyond a shadow of doubt that the only solution of India's problem is Pakistan. I feel we have exhausted all reasons. It is no other tribunal to which we can go. The only tribunal is the Muslim nation”.
’’یہ تمام شبہات کے سائے سے ہٹ کر بہت واضح طورثابت کرتے ہیں کہ مسئلہ بھارت کا واحد حل پاکستان (کی تخلیق )ہے-میں محسوس کرتا ہوں کہ ہم نے تمام وجوہات کو بہت بڑھا دیا ہے-ایسا کوئی بھی ٹریبونل (قانونی ڈھانچہ) نہیں ہے جہاں ہم جا سکیں -واحد ٹریبونل مسلم قوم ہے جہاں ہم جا سکتے ہیں-(جو پہلے ہی اپنا فیصلہ سنا چکے ہیں) ‘‘-
چنانچہ مسلم لیگ کونسل نے ایک قرارداد میں مسلمان عمائدین سے مطالبہ کیا کہ برطانوی سامراج کی مسلمان دشمن حکمتِ عملی پر احتجاج کے طور پر وہ تمام برطانوی خطابات واپس کر دیں اور برطانوی ہند کی انگریز حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کا آغاز کریں:
“The time has come for the Muslim nation to resort to direct action to achieve Pakistan and to get rid of the present slavery under the British and contemplated future Caste Hindu domination”.
’’وقت آچکا ہے کہ مسلمان قوم پاکستان کے حصول کے لیے واضح اور براہِ راست عملاًکچھ کریں اور برطانوی راج اور مستقبل میں ہندو بالادستی سے چھٹکارہ حاصل کریں‘‘-
بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح (رحمۃ اللہ علیہ)نے برطانوی حکومت کے خلاف مسلمان عوام کے اس راست اقدام کو قیامِ پاکستان سے برطانوی حکومت کے انکار پر احتجاج کا نام دیا-یہ راست اقدام کلکتہ سے لے کر پشاور تک پورے برصغیر میں قیامِ پاکستان کے حق میں ایک ریفرنڈم ثابت ہوا- کلکتہ کے جلوس سے بلند ہونے والا یہ نعرہ کہ ’’لڑ،کے لیں گے پاکستان‘‘مسلم ہندوستان کے گلی کوچوں میں گونجنے لگا اور بالآخر مسلمان قوم کے اِس عوامی جمہوری احتجاج کے سامنے برطانوی حکومت نے ہتھیار پھینک دیے اور یوں پاکستان وجود میں آ گیا-