ڈنمارک میں آزادئ صحافت

ڈنمارک آزادی صحافت کا جزوی طور پر قائل ہے۔ 2005ء میں اس کے ایک مشہور اخبار نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارے میں اہانت آمیز تصاویر شائع کیں جس کی ابتدا میں ڈنمارک کی حکومت نے آزادی صحافت کے نام پر تائید کی۔ مسلمانوں نے بین الاقوامی سطح پر شدید احتجاج کیا۔ ایران نے ردِ عمل کے طور پر ہالوکاسٹ کے بارے میں ایک کارٹون مقابلے کا بھی اعلان کیا۔ اس وقت ڈنمارک پر کوئی اثر نہ ہوا۔ مگر جب مسلم دنیا خصوصاً مشرق وسطیٰ نے ڈنمارک کی اشیاء کا بائیکاٹ کیا تو ڈنمارک نے گھٹنے ٹیک دیے اور اس کے وزیر نے معافی مانگی مگر 2008ء میں ان کے اخباروں نے دوبارہ یہ اہانت آمیز تصاویر شائع کیں جس پر مسلمانوں کا احتجاج تا حال جاری ہے۔ دوسری طرف ڈنمارک کے اخبارات نے ایران میں ہالوکاسٹ سے متعلق کارٹونوں کی کوئی تصاویر نہیں چھاپی۔ اور ہالوکاسٹ سے متعلق خود بھی کوئی کارٹون نہیں بنوائے جیسا کہ انھوں نے اعلان کیا تھا۔ اس سے ڈنمارک میں آزادی صحافت کا دہرا معیار سامنے آتا ہے۔

ڈنمارک کے قانونِ صحافت کے سیکشن 266۔ ب کے مطابق کسی انسان کی توہین یا اس کو دھمکی جو چاہے عوامی طور پر ہو یا اس کی نسل، جلد کے رنگ، قومیت، چہرے یا جنس کی بنیاد پر ہو، ایک جرم ہے۔ مگر ان کی عدالت کے مطابق ہالوکاسٹ تو اس ذیل میں آتا ہے مگر یہ اہانت آمیز کارٹون نہیں۔

اس کے علاوہ 2003ء میں جیلاندپوستن نامی اخبار (جس نے یہ کارٹون چھاپے تھا) نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے کارٹون چھاپنے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ اس سے ان کی توہین ہوتی تھی۔

حوالہ جات

ترمیم