ڈھولک کے گیت
ڈھولک کے گیت : حیدرآبادی ڈھولک کے گیتوں کے نام سے مشہور یہ گیت ایک دور میں حیدرآبادی تہذیب کا ایک حصہ مانے جاتے تھے۔ حیدرآباد میں ڈھولک کے گیتوں کی روایت برسوں سے چلی آ رہی تھی۔ ماضی میں شادی کی تقریب کئی دنوں تک چلتی تھی۔ سارے رشتہ دار جمع ہوتے۔ کام میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹاتے۔ ایسے مو قعوں پر گیتوں میں آپسی رشتوں کے ساتھ شوخی ،چھیڑ چھاڑ ،نوک جھونک کے ذریعے ایک سماں بندھ جاتا۔ رشتوں کی اہمیت کا اندازہ ہوتا۔ آج رشتے بے معنیٰ ہو گئے ہیں۔ ایک دوسر ے کا ساتھ دینے کے لیے وقت کی کمی ہو گئی ہے۔ گیت گانے کے لیے مراثنیں بھی ہوا کر تی تھیں۔ شادی کے موقع پر دلھا اور دلھن والے ڈھولک کے گیتوں کی پیش کشی کے لیے علاحدہ علاحدہ مراثنوں کا انتخاب کر تے تھے۔ اسی مناسبت سے وہ لوگ گیت گاتے تھے۔ لاڑ بازار میں ایک مشہور مراثن سہاگن بیگم تھیں۔ ان کے علاوہ معراج بیگم اور دلشاد نواز بھی کافی مقبول تھیں۔ انھیں پیسوں کے علاوہ چاول ،پان اور ناریل کا نیگ دیا جاتا تھا۔ شادی کی شروعات ہلدی پیسنے کی رسم سے ہوتی تھی۔ اس مو قع پر چکّی کے گیت گائے جاتے تھے۔ پھر گیتوں کا سلسلہ آرسی مصحف کی رسم اور دلہن کی وداعی تک چلتا رہتا۔ دیہاتوں میں دن بھرمزدوری کر نے کے بعد گھر لوٹ کر رات میں اکثر خواتین ایک جگہ جمع ہو جا تی تھیں اور مختلف گیت گاتی تھیں۔ میں نے بھی ان گیتوں کی طرز میں کئی گیت لکھے ہیں۔ اور انھیں ریڈیو پر پیش کیا ہے۔ ارجمند نظیر صاحبہ نے مختلف مو قعوں پر گائے جانے والے گیتوں کی جھلکیوں سے عوام کو تعارف بھی کروا رہی ہیں۔
چکی کے گیت
ترمیمپہلے چکّی کے گیت کافی مقبول تھے۔ چونکہ خواتین ایک جگہ جمع ہو کر چکّی پر گیہوں یا جوَ پیستیں یا اوکھلی اور مسّل کے ذریعہ مرچ ،ہلدی یا دیگر مصالحے جات پیستی تھیں۔ ایسے موقعوں پر کام کے دوران ان گیتوں کا استعمال کرتی تھیں۔ ان کے علاوہ شادی بیاہ یا دیگر تقاریب کے مو اقع پر ڈھولک پر گیت گائے جاتے تھے۔ دکنی زبان کے یہ گیت مختلف علاقوں میں تھوڑے بہت الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ گائے جاتے تھے۔ ہندو مسلمان خواتین، سبھی مل کر ان گیتوں کو گاتی تھیں۔ ان میں مذ ہبی، اصلاحی ،تفریحی اورطنزیہ و مزاحیہ ہر طرح کے مو ضوعات پر گیت شامل ہو تے۔ ان گیتوں کے تخلیق کار کا کسی کو پتہ نہیں ہے۔ یہ گیت صرف یادداشت کی بنیاد پر سینہ بہ سینہ چلے آ رہے ہیں لیکن ان گیتوں میں ان کے سچّے اور پاک خیالا ت، خوبصورت احساسات اور خوشی اور غم کے جذبات کا اظہار مو جود ہے۔ بزرگانِ دین نے بھی ان گیتوں کے طرز پر مذہبی و اصلاحی گیت لکھے ہیں۔ چکّی کا خاتمہ ہوا تو وہ گیت تو ختم ہو گئے لیکن ڈھولک کے گیتوں کا رواج عرصہ تک قائم رہا۔
آج کل کے دور میں
ترمیماب دھیرے دھیرے اس کے رجحان میں بھی کمی ہو نے لگی ہے۔ بہت ہی کم گھرانوں میں اب اس کا رواج باقی رہ گیا ہے۔ البتہ جو افراد با ہر کے ملکوں میں جابسے ہیں۔ وہاں اپنے بچوں کی شادی کی تقریبات میں ڈھولک کے گیتوں کا اہتمام کر نے لگے ہیں۔ آج سنگیت کے نام پر باجا ،ناچ ،گانے اور ،شور شرابہ نے جگہ لے لی ہے۔