کاما سترا کے مندر
بھارت میں بنائے گئے ہندووَں کے عظیم انشان قدیم مندروں کا وہ سلسلہ ہے جن کی تعمیرات آٹھویں صدی عیسوی سے چودویں صدی عیسویں کے درمیان ہوئی ۔ ان مندروں کی خصوصیت ان کی بیرونی دیواروں پر نقاشی کا نہایت عمدہ کام ہے ۔ مگر یہ یہ سب کی کاما یا تنترا کام کی برہنہ مورتیوں سے بھرا ہوا ہے ۔ ان میں سب سے زیادہ عالی شان مندر جو تعمیر کا شاہکار ہے کھجورا کا مندر ہے ۔ اس مندر کی بیرونی دیواروں پر نہ صرف برہنہ موتیاں ہیں بلکہ کاما کے مختلف آسن بتائے گئے ۔ یہ آسن انسانوں کے انسانوں اور انسانوں کے جانوروں کے ساتھ بھی ہیں ۔
بھارت میں صرف یہی ایک مندر کاما کے آسن کا نہیں ہے بلکہ سو سے زیادہ چھوٹے بڑے مندروں ہیں ۔ جو پورے بھارت میں بکھرے ہوئے ہین ۔ جن میں اس طرح کی چتر کاری کام ہے ۔ اس کے علاوہ بھی اکثر قدیم مندروں کی بیرونی دیواورں پر کچھ ایسے آسن بنے ملتے ہیں ۔ ان مندروں کی شہرت پوری دنیا میں ہے ہر سال سیکڑوں سیاح بیرونی ممالک سے دیکھنے آتے ہیں ۔ اس طرح ان مندروں کی بدولت بھارت کو کثیر زر مبادلہ کی آمدنی حاصل ہوتی ہے ۔ بشتر شیو مندر ہیں ۔ جہاں شیو کی مورتی نہیں بلکہ اس کے لنگ (عضو تناسل) کی پوجا کی جاتی ہے ۔ یہ لنگ ایک خاص وضع کی شکل میں پیوست ہوتا ہے ۔ یہ شکل پاروتی کی یونی (نہم اندانی) کہلاتی ہے ۔ اس کے علاوہ پاربتی کی یونی پوجا عام ہے اور اس کے ایسے مندر بھی ملتے جن میں کالی کی یونی پوجا ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ ان کی ایک پوجا ہے جس میں کسی مرد یا عورت کء لنگ اور یونی کی پوجا کی جاتی ہے ۔
ہندو مت جنسیات سے عبارت ہے اور ان کے پرانوں میں ان خرافات کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہیں ۔ جس میں دیوتاؤں رشیوں اور منیوں نے دوسروں کی بیویوں اور لڑکیوں کے علاوہ اپنی بیٹیوں کی ساتھ بھی جینسی ہوس کی داستانیں ہیں ۔ صرف پران ہی نہیں بلکہ وید میں بھی ایسے اشلوک ملتے ہیں ۔ ان تینوں دیوتاؤں برہما ، بشن ، مہیش اور اندر کو جینسی دیوانہ بتایا گیا ہے ۔ جس معاشرے ننگے سادھوں اور مذہبی پیشواں کی عزت و توقیر اس درجہ کی جاتی ہے کہ انھیں اپنی بیویاں ، کنواری بہنیں اور بیٹاں پیش کی جاتی ہیں اور ان کا قبول کرنا یا طلب کر ایک بڑا اعزاز سمجھا جاتا ہے ۔ جہاں کرشن کی ہوس ناکی کا داستانیں جس کی 1610 سے زہادہ بیویاں تھیں بڑے ذوق و شوق سے سنائی جاتی ہیں ۔ جہاں اولاد نہ ہونے کی صورت میں نیوگ یعنی اور اور آدمی سے اولاد پیدا کرنے کی اجازت ہے ۔ اس اولاد کو انگریزوں نے قانونی اعتبار سے دھرم شاستروں کی اجازت کی بنا پر درست تسلیم کیا ۔ عقیدت مندی اور ضیعف اعتقادی نے ان ذہنوں کو ایسا جکڑ رہا ہے کہ انھیں کچھ سمجھ اور نظر نہیں آتا ہے ۔ ہم یہاں رگ وید کے کچھ حوالے دے رہے ہیں ۔
اے ورن ہم برا کہا ہم پر رحم کر ، ہمارے باپوں کی خطاؤں کو معاف کر ہمارے دشمنوں کو اس مدح سرائی کے صلہ میں ہلاک کر ، کالے چمڑے والوں کو غارت کر ، جس کے بدلے ہم نے تیرے لیے قرباییاں دیں ہیں ۔ جیسے بیج دینے والا سانڈ گایوں میں جفت ہونے کے اپنی طاقت سے پہنچتا ہے ۔ ویسے ہی اندر عمدہ صفات کی بارش کرنے والا ثروت والا کل دنیا کو بنانے والا اپنے بل سے دہر ماتما آدمی تک پہنچتا ہے ۔ جیسے باپ اپنی کنواری بیٹی سے جماع کرتا ہے ۔ ویسے ہی بادل زمین پر اپنی بوندیں برساتا ہے ۔ جیسے باپ اپنی بیٹی سے جماع کرتا ہے ویسے ہی سورج صبح صادق میں کرنیں چھوڑ دیتا ہے ۔ جیسے پیاسا ہرن دوڑ کر تالاب یا ندی سے پاندی پیتا ہے ویسے اندر ہمارے قابل تعریف یجہ کا پانی پیتا ہے ۔ (رگ وید سوکت 16 منتر 5) جیسے کبوتر کبوتری کے پاس جاتا ہے ویسے ہی اندر ہماری فریاد پر پہنچتا ہے ۔ (رگ وید سوکت 30 منتر 4) جیسے گھوڑا گھوڑیوں سے جفت ہوتا ہے ۔ ویسے ہی لیٹی ہوئی عورت بھی ہوتا ہے ۔ (رگ وید سوکت 65 منتر 1) اے سیکڑوں ترکیبیں جانے والے راجا میں تیری رعیت اور فوج کے گیت گانے والا ہوں مجھ کو پڑوسی ایسا سناتے ہیں جیسے خاوند کو اس کی بہت سی بیویاں ایذا پہنچاتی ہیں ، جیسے چوہے سوت کو کاٹ کر کھاتے ویسی ہے مجھے بھی مدد دے ۔ (رگ وید سوکت 105 منتر 8)
قدیم آریا اپنی بیٹی کے ساتھ جماع کرنا برا نہیں سمجھتے تھے ۔ ان کے دیوتا نے اپنی بیٹی کے ساتھ جماع کیا تھا ۔ رفتہ رفتہ شائستگی بڑھی تو بیٹی کے ساتھ جماع کرنے کو برا سمجھنے لگے ۔ منو نے تلفین کی کہ بیٹی کے ساتھ جماع کرنے سے پاپ ہوتا ہے ۔ اگر کوئی شخص اس فعل کا ارتکاب کرے تو برت رکھے اور گائے کا پیشاب نوش کرے ۔ آریہ اب تک شراب پیتے جوا کھیلتے اور زنا کرتے تھے ۔ پہلے زمانے میں ہندو راجے اپنی رانیوں سے فخریہ یہ ارتکاب کراتے تھے ۔ گورگھپور کے راجا کا قصہ مشہور ہے کہ اس نے اپنی پیاری رانی کا سماگم گھوڑے کروایا جس کی وجہ سے رانی مرگئی ۔ سلاطین اسلامیہ نے اپنے عہد حکومت میں اس فعل کو جرم قرار دیا ۔ برٹش گورنمٹ نے بھی اس جرم مرتکب ہونے پر سخت سزائیں دیں ۔ جس کی وجہ سے ویدک دہرم کی یہ وحشیانہ تعلیم ہندوستان نیست و نابود ہو گئی ۔