کانٹینوس گلوکوز مانیٹر

ایک کانٹینوس گلوکوز مانیٹر (سی جی ایم) ایک ایسا آلہ ہے جو خون میں گلوکوز کی مستقل بنیادوں پر نگرانی کے لیے انسولین کی کمی کے شکار افراد یعنی ذیابیطس کی قسم اؤل ، قسم دوم ذیابیطس یا دیگر اقسام (مثلاً حمل ذیابیطس) سے متاثرہ لوگ استعمال کرتے ہيں۔ یہ آلہ تین حصوں پر مشتمل ہوتا ہے: جلد کے نیچے پيوستہ ایک چھوٹا الیکٹروڈ، ایک عدد ٹرانسمیٹر جو باقاعدہ وقفوں سے ریڈنگ بھیجتا ہے (ہر 5 سے 15 منٹ تک) اور ایک علاحدہ ریسیور۔ دور حاضر کے منظور شدہ سی جی ایم ایک انزیمیٹک ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں جو برقی رو پیدا کرنے والے بیچوالا سیال میں گلوکوز کے مالیکیولز کے ساتھ کیمیائی رد عمل ظاہر کرتی ہے۔ یہ برقی کرنٹ (گلوکوز کے ارتکاز کے متناسب) پھر سینسر سے منسلک ٹرانسمیٹر سے ریڈر تک پہنچایا جاتا ہے جو مریض کو ڈیٹا دکھاتا ہے۔

ایبٹ لیبارٹریز کا فری اسٹائل سی جی ایم۔ سینسر اور ٹرانسمیٹر اوپری بازو پر نصب کیے گئے ہیں جبکہ رسیورخون میں گلوکوز کی موجودہ سطح اور ماضی قریب خون میں گلوکوز کی سطح کا گراف دکھارہاہے۔

خون میں گلوکوز کی سطح کوجانچنے کے لیے روایتی طریقہ کار فنگرپرک ٹیسٹنگ ہے جس کے تحت انگلی کے ایک نقطے پر سوئ چبھا کر مریض کے خون تک رسائ حاصل کی جاتی ہے اور ایک وقت میں ایک ہی نقطہ پرگلوکوز کی سطح کی پیمائش کی جاتی ہے۔ سی جی ایم کا استعمال خون میں گلوکوز کے رجحانات کو وقت کے ساتھ جانچنے کا ذریعہ فراہم کرتاہے۔ صارفین کوہرحال میں سی جی ایم آلات کو روایتی طریقہ کارہاے کے ذریعے کیلیبریٹ کرنا ہوتا ہے۔ [1]

سی جی ایم ایک تیزی سے اپنائی جانے والی ٹیکنالوجی ہے جو ذیابیطس کے شکار لوگوں کے لیے مفید ثابت ہو رہی ہے۔۔ تحقیق ثابت کر رہی ہے کہ یہ ٹیکنالوجی ہائپوگلیسیمیا اور گلائکیٹیڈ ہیموگلوبنجیسی پیچیدگیوں پرقابو پانے میں موثر کردار اداکر رہی ہے۔ البتہ کوکرین نامی تنظیم کے کے منظم جائزے کے مطابق بچوں،بڑوں اورذیابیطس کے مریض افراد میں سی جی ایم ٹیکنالوجی کے موثر ثابت ہونے کے محدوداورمتضادثبوت موجود ہیں۔ تاہم، مسلسل گلوکوز مانیٹر کا استعمال ہیموگلوبن A1c کی سطح کو کم کرتا دکھائی دیتا ہے، صرف کیپلیری بلڈ ٹیسٹنگ کے ذریعے نگرانی کرنے سے زیادہ، خاص طور پر جب ان افراد کے ذریعے استعمال کیا جاتا ہے جن کا استعمال خراب کنٹرول شدہ ذیابیطس کے ساتھ ایک مربوط انسولین پمپ کے ساتھ ہوتا ہے۔ [2] تاہم سی جی ایم ٹیکنالوجی کی چند کمزوریاں بھی ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ یہ ٹیکنالوجی ہائپوگلیسیمیا کا پتہ لگانے میں انتہائ موثر نہیں ہے جو ذیابیطس کے مرض کا ایک عام ضمنی اثر ہے- یہ خاص طور پر پریشانی کا باعث ہے کیونکہ کچھ آلات ہائپوگلیسیمیا سے خبردار کرنے کے لیے الارم بجاتے ہیں اور لوگ ان الارم پر بھروسا کر سکتے ہیں خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ پھر بھی، اوپر ذکر کردہ کوکرین کے منظم جائزے پر، مسلسل گلوکوز مانیٹر کے استعمال سے ہائپوگلیسیمیا یا کیٹوایسیڈوسیس کے خطرے میں اضافہ نہیں ہوا۔ [2] کچھ مینوفیکچررز صارفین کو صرف سی جی ایم پیمائشوں پر انحصار کرنے کی تنبیہ کرتے ہیں اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ہیلتھ اینڈ کیئر ایکسی لینس تجویز کرتا ہے کہ خون میں گلوکوز کی سطح کی فنگرپرک ٹیسٹنگ کے ذریعے ہائپوگلیسیمک اقدار کی توثیق کریں۔ [3] ایک اور حد بندی یہ ہے کہ گلوکوز کی سطح خون کی بجائے بیچوالا سیال سے لی جاتی ہے۔ چونکہ گلوکوز کو خون کے دھارے سے بیچوالا سیال میں جانے میں وقت لگتا ہے، اس لیے خون میں گلوکوز کی موجودہ سطح اور سی جی ایم کے ذریعے ماپا جانے والی سطح کے پیچھے ایک موروثی وقفہ ہے۔ یہ وقفہ مریض اور آلہ کے حساب سے مختلف ہوتا ہے اور عام طور پر20 سے 5 منٹ پر محیط ہوتا ہے۔۔ [4]

فلیش گلوکوز مانیٹرنگ

ترمیم

ایبٹ ذیابیطس کیئر نے 2015 میں اپنی ایک پراڈکٹ فری اسٹائل لیبرے کو ایک "فلیش گلوکوز مانیٹرنگ" آلہ کے بطورمتعارف کروایا ,اس میں ایک ایسا سینسر تھا جو فیکٹری کیلیبریٹڈ تھا، اس نئے آلے کو فنگر اسٹک گلوکوز ٹیسٹ کے خلاف مزید کیلیبریشن کی ضرورت نہیں تھی۔ جلد کے نیچے ایک پروب کے ساتھ سینسر، جیسا کہ دوسرے سی جی ایم سینسروں میں ہوتا ہے، وقفہ وقفہ سے سیالوں کے گلوکوز لیول کی مسلسل پیمائش کرتا ہے (بلڈ شوگر لیول کے لیے ایک پراکسی کے طور پر)، لیکن یہ پیمایشیں (اوسطاً ہر 15 منٹ کی مدت میں ) سینسر کے اندر ہی محفوظ کر لی جاتی ہیں۔اسی لیے بجائے کسی بیرونی ڈیوائس سے وائرلیس لنک (جیسے بلوٹوتھ) کے ذریعے،جیسا کہ دوسرے سی جی ایم سسٹمز استعمال کرتے ہیں، سینسر میں ذخیرہ شدہ ڈیٹا صرف سینسر یونٹ کے 1-2 سینٹی میٹر کے اندر موجود ایک "ریڈر" کو قریب فیلڈ کمیونیکیشن (این ایف سی) ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے آن ڈیمانڈ منتقل کیا جاتا ہے۔ [5] یہ صارف کی طرف سے کسی بھی وقت ایک ہم عصر پڑھنے کو حاصل کرنے کے لیے کیا جا سکتا ہے اور سینسر یونٹ میں محدود میموری کی وجہ سے ڈیٹا غائب ہونے سے بچنے کے لیے کم از کم 8 گھنٹے میں ایک بار کرنا چاہیے۔

"مسلسل گلوکوز مانیٹرنگ" کی بجاے "فلیش گلوکوز مانیٹرنگ"کی اصطلاح کے استعمال کی وجہ سے زندگی بیمہ پالیسی کی آسان حصولی نے بھی ایبٹ کے نسبتآ کم مہنگے آلے کی اپنائت میں اہم کردار ادا کیا۔۔

تاریخ

ترمیم

امریکا

ترمیم

پہلا امریکی سی جی ایم سسٹم ایف ڈی اے نے 1999 میں منظور کیا تھا۔ مسلسل تحقیق کی بدولت سینسر پہننے کے وقت کی لمبائی ، ڈیٹا حاصل کرنے اور پڑھنے کے طریقہ ہائے کار اور صارفین کوانتہائ اور کم گلوکوز کی سطح کے متنبہ کرنے کے لیے ترتیبات کو بڑھا دیا گیا ہے۔

میڈ ٹرونک منی میڈ کے پہلے ورژن نے ہر دس سیکنڈ میں گلوکوز کی ریڈنگ لی جس میں اوسط ریڈنگ ہر پانچ منٹ میں رپورٹ کی گئی۔ سینسر 72 گھنٹے تک پہنا جا سکتا ہے۔

ڈیکس کام کی طرف سے تیار کردہ دوسرا سی جی ایم سسٹم 2006 میں منظور کیا گیا۔ سینسر کو 72 گھنٹے تک استعمال کے لیے منظور کیا گیا تھا اور ڈیٹا کی منتقلی کے لیے وصول کنندہ کو پانچ فٹ کے اندر ہونا ضروری ہے۔

2008 میں ایبٹ نے تیسرا ماڈل منظور کیا ، نئے آلے کا نام فری اسٹائل نیویگیٹ رہے اور یہ آلہ پانچ دن تک پہنا جا سکتا ہے۔

چین سی جی ایم سسٹم پر تحقیق اور انھیں تیارکرتا ہے۔ یورپی یونین کے لیے منظور ہونے والا پہلا چینی سی جی ایم سسٹم میڈ ٹرم ٹیکنالوجیز نے تیار کیا ہے۔ سینسر کا مطلوبہ استعمال 14 دن تک ہے اور اسمارٹ فون ایپلی کیشن کے ذریعے ہر 2 منٹ میں گلوکوز کی سطح کی پیمائش کرتا ہے۔ [6] میڈٹرم کی بنیاد 2008 میں رکھی گئی تھی اور یہ شنگھائی، چین میں مقیم ہے۔ 

برطانیہ

ترمیم

مارچ 2022 تک، NHS کے موجودہ رہنما خطوط مشورہ دیتے ہیں کہ ٹائپ 1 ذیابیطس کے تمام مریضوں کو یا تو فلیش گلوکوز مانیٹرنگ یا سی جی ایم پیش کیا جانا چاہیے۔ ٹائپ 2 ذیابیطس والے افراد خود بخود اہل نہیں ہوتے ہیں، لیکن اگر وہ دن میں دو یا زیادہ بار انسولین استعمال کرتے ہیں، بار بار یا شدید ہائپوگلیسیمیا رکھتے ہیں، ہائپوگلیسیمیا کے بارے میں آگاہی خراب کرتے ہیں اور اپنے خون میں شکر کی نگرانی نہیں کر سکتے ہیں تو انھیں فلیش گلوکوز مانیٹرنگ یا سی جی ایم کی پیشکش کی جا سکتی ہے۔ لیولز لیکن اسکیننگ ڈیوائس استعمال کرسکتے ہیں یا کوئی اور ان کے لیے اسکین کرسکتا ہے۔ [7]

بند لوپ سسٹم

ترمیم

ذیابیطس قسم اؤل کے علاج کے لیے "کلوزڈ لوپ" سسٹم کی ترقی میں سی جی ایم ایک کلیدی جزؤکی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک بند لوپ سسٹم میں سی جی ایم کے ذریعے خون میں گلوکوز کی کی مقدار کی نگرانی کی جاتی ہے اورخودکارطریقے سے انسولین پمپ کے ذریعے صارف کو انسولین فراہم کی جاتی ہے تاکہ اس کا مرض قابو میں رہے۔ متعدد انسولین پمپس میں خودکار موڈ کی سہولت موجود ہے مگر پھر بھی تکنیکی پیچیدگیوں کے باعث اسی ایک حقیقی بند لوپ سسٹم نہی گردانا جاتا۔ اوپن سورس کے نفاذ کی کئی مثالیں موجود ہے جس میں سے ایک مثال مصنوعی لبلبہ کا نظام ہے [8] اور اوپن اے پی ایس ۔ [9]

حوالہ جات

ترمیم
  1. "Continuous Glucose Monitoring"۔ Hormone Health Network۔ Endocrine Society۔ November 2017۔ 22 دسمبر 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 اگست 2018 
  2. ^ ا ب
  3. National Institute for Health and Care Excellence۔ "FreeStyle Libre for glucose monitoring"۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 مئی 2021 
  4. "Glucose: Continuous Glucose Monitoring"۔ Cleveland Clinic۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 اگست 2018 
  5. "Flash glucose monitoring"۔ Diabetes UK۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 ستمبر 2020 
  6. "Medtrum Technologies Inc."۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 فروری 2022 
  7. "Getting a free cgm, flash glucose monitor (freestyle libre) or insulin pump on the nhs – who should qualify?"۔ Diabetes UK۔ 31 March 2022۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 جون 2022 
  8. "Research spotlight – the artificial pancreas"۔ Diabetes UK۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 فروری 2020 
  9. "OpenAPS.org – #WeAreNotWaiting to reduce the burden of Type 1 diabetes"۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 فروری 2020