کتاب چہار گفتار کا تعارف
تعارف
ترمیمکتاب چہار گفتار درحقیقت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای مدظلہ العالی کی قیام امام حسین علیہ السلام سے متعلق کی گئی چار تقاریر کا مجموعہ ہے۔جن میں آپ نے عاشورا کے مختلف پہلووں ،اسباب و آثار سے متعلق انتہائی بصیرت کے ساتھ گفتگو کی ہے۔کتاب کی اہمیت اور افادیت کے پیش نظر خانہ فرہنگ جمہوری اسلامی ایران حیدرآباد سندھ نے اس کتاب کا اردو میں ترجمے کا اہتمام کیا ہے اور ترجمے کی ذمے داریاں فارسی زبان کے استاد محترم جناب غلام حسن مفتی صاحب نے انجام دیا ہے۔کتاب چار تقاریر پر مشتمل اور ہر تقریر کو ایک فصل کے مانند ہے یہاں پر ہر تقریر کا ایک مختصر خلاصہ پیش خدمت ہے ۔
پہلی گفتار
ترمیمعاشورا کے بارے میں ہم نے بہت کچھ کہا اور سنا ہے اس کے باوجود تاریخ کے اس عظیم سانحے کے بہت سے گوشے اب بھی ایسے ہیں جن پر غور و فکر کرتے ہوئے ہم درس اور عبرت حاصل کرسکتے ہیں۔اس عظیم واقعے پردوصورتوں میں غور و فکر کیا جا سکتا ہے:
پہلی صورت
ترمیمعاشورا سے ملنے والے دروس سے متعلق ہے ۔ اس واقعہ عاشورا میں متعدد دروس اور پیغامات موجود ہیں۔عاشورا ہمیں دین کی حفاظت کے لیے قربانی کا درس دیتا ہے ،اسی طرح قرآن کی راہ میں ہر چیز قربان کرنے اور ھق و باطل کی جنگ میں مردو زن،پیر و جوان ،چھوٹے اور بڑے ،امیر و غریب اور امام و ماموم کو ایک ہی صف میں کحڑے ہوکر مقابلہ کرنے کا درس دیتا ہے ۔
دوسری صورت
ترمیمعاشورا سے حاصل ہونے والی عبرتیں ہیں۔درس کے علاوہ عاشورا سے عبرت بھی حاصل کی جا سکتی ہے بلکہ انسان کو عبرت حاصل کرنے کے لیے کربلا بھی دیکھنا چاہیے ۔[1]
دوسری گفتار
ترمیمامام حسین علیہ السلام کے قیام کا بغور مطالعہ کیا جائے تو مدینہ سے مکہ اور پھر کربلا میں جام شہادت نوش کرنے تک چند مہینوں پر مشتمل دورانیے میں سو سو زیادہ اہم درس پائے جاتے ہیں۔اگرچہ کہا جا سکتا ہے کہ اس واقعے میں ہزاروں درس پاءے جاتے ہیں کیونکہ امام عالی مقام کا ہر اشارہ ایک درس ہو سکتا ہے ،مگر آپ کے اقدامات کو مد نظر رکھتے ہوئے غور و فکر کرتے ہوئے سو کے قریب عنوان اخذ کرسکتے ہیں جن میں سے ہر ایک قوم و ملت ،تاریخ مملکت ،لوگوں کی تربیت ،معاشرے کے امور چلانے اور خدا کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے ایک درس ہے ۔[2]
تیسری گفتار
ترمیماسلام میں جہاد کی اہمیت :اسلامی ثقافت کے اہم نکات میں سے ایک نکتہ جس کا زیادہ تر عملی مظاہرہ صدر اسلام میں زیادہ اور ہمارے دور میں بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے وہ جہاد کی ثقافت ہے ۔ جہاد صرف میدان جنگ حاضر ہونے کا نام نہیں بلکہ دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے کی جانے والی ہر کوشش کو جہاد کہا جا سکتا ہے ۔[3]
چوتھی گفتار
ترمیمواقعہ کربلا کتنا عظیم اور دردناک واقعہ ہے اس کو کسی ھد تک جاننے کے لیے ہم حضرت امام حسین علیہ السلام کی زندگی کے تین ادوار کی مختصر وضاحت کریں گے۔ان تینوں ادوار کے ذریعے جس شخصیت کی ہم معرفت حاصل جریں گے ان کے بارے میں یہ گمان بھی نہیں کر سکتے کہ معاملہ اس حد تک بگڑ جائے گا کہ روز عاشورا آپ کے نانا کی امت کا ایک گروہ آپ کا محاصرہ کرے گا اور آپ کو اپنے اہل بیت ،اصھاب اور دوستو کے ساتھ بے دردی کے ساتھ تقل عام کرے گا اور مخدرات عصمت و طہارت کو اسیر کرت گا۔
ان تین ادوار میں سے پہلا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارک کا زمانہ ہے۔دوسرا حضرت امام حسین علیہ السلام کی جونای یعنی امیر المومنین امام علی علیہ السلام کی حکومت تک کے پچیس سالوں پر مشتمل ہے اور تیسرا دورانیہ امیر المومنین کی شہادت سے کے کر واقعہ کربلا تک کے بیس سالوں پر مبنی تاریکی اور پستی کا دور ہے ۔[4]