کرناٹک میں پھولوں کی کاشتکاری

کرناٹک میں پھولوں کی کاشتکاری کافی شہرت رکھتی ہے اور یہ کافی وسیع علاقے پر پھیلی ہوئی ہے۔ ریاست میں 18,000 ہیکٹیر علاقہ پھولوں کی کاشتکاری کے کام آتا ہے۔ یہ روایت تین سو سال سے بھی زیادہ عرصے سے مشہور ہے۔ دیوانہالی اور چکبالپور علاقہ جات میں رہائش پزیر تیگلا برادری پھولوں کی افزائش میں کافی شہرت رکھتی ہے۔

گلاسی ٹائیگر بٹر فلائی بنگلور کے ایک پھول کا رس چوستے ہوئے۔

انجمن سازی

ترمیم

2003ء میں انٹرنیشنل فلاور آکشن بینگلور (آئی ایف اے بی) نے، جو پھولوں کے کاشتکاروں کے زیر انتظام کمپنی ہے، ریاستی حکومت کے زیر انتظام کرناٹک ایگرو انڈسٹریز کارپوریشن (کے اے آئی سی) کی عمل آوری اپنے ہاتھوں میں لے لی۔[1]

عالمی افق میں امتیازی موقف

ترمیم

کرناٹک کی عالمی محاذ پر پھولوں کی کاشتکاری پر پکڑ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے اس نے نیدر لینڈز میں قائم کمپنی شیر کو حاصل کرنے کی پہل کی ہے جو دنیا بھر میں گلابوں کی تیاری اور سربراہی میں سر فہرست ہے۔ شیر کا مجموعی کاروبار $50 ملین یا 220 کروڑ بھارتی روپیے ہے، جس پر مالکانہ حق رکھنے کا مطلب گلابوں کے عالمی بازار پر قبضہ ہے۔ شیر نے نہ صرف نیدر لینڈز بلکہ کینیا اور ایتھوپیا میں سبز گھر (گرین ہاؤز) قائم کیے جہاں سالانہ 600 ملین گلاب کی پیداوار تیار ہوتی ہے۔[1]


ریاستی کاشت کاری

ترمیم

اعلٰی قدر و قیمت کی پھولوں کی فصلوں کو سبز گھروں یا گرین ہاؤزوں کاشت کاری کے مرحلے سے گذرنا ہوتا ہے جہاں وہ زیر نگرانی حالات، کیڑے مکوڑوں سے بچاؤ، امراض سے تحفظ اور ہوا اور رطوبت کے معاملوں میں بے حد احتیاط سے رکھے جاتے ہیں۔ جدید پھولوں کی کاشتکاری میں جن پھولوں کی مانگ پھیلی ہوئی ہے، ان گلاب، اینتھریم، گیربیرا، گلاڈیولی، آرکیڈ، کارنیشن اور برڈ آف پیراڈائس ہیں کو پولی ہاؤزوں میں اگائے جاتے ہیں۔[1]

پھولوں سے جو مصنوعات بنتی ہیں، ان میں عطریات، مغربی طرز کے سینٹ اور قدرتی خضاب شامل ہیں۔ سوکھے پھول سجاوٹ کے کام آتے ہیں۔ جہاں تک کاروبار کی منفعت بخشی کی بات ہے، کوئی بھی شخص ایک لاکھ روپیے فی ہیکٹیر سالانہ سوکھے پھولوں سے کما سکتا ہے۔ نرسری کا کاروبار جو پودوں کے گملوں میں اُگائے جانے سے تعلق رکھتا ہے اور جس میں بیجوں کی کاشت بھی شامل ہے، یہ بھی کافی مقبول ہے اور منافع بخش بھی ہے۔[1]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم

خارجی روابط

ترمیم