کشتری خاندان
اس مضمون کی ویکائی کی ضرورت ہے تاکہ یہ ویکیپیڈیا کے اسلوب تحریر سے ہم آہنگ ہو سکے۔ براہ کرم اس مضمون کی ویکائی میں مدد کریں۔ |
کشتری خاندان Kshatrya مشہور سیاح ہیون سانگ (630ء) اور وانگ ہیون سی (657ء) کی سیاحت کے وقت ولایت گندھارا (وادی کابل)، کالمپا (لمغان) اور نگ رہارا (ننگرھارا) آریائی کشتری خاندان کے زیر اقتدار تھیں۔ ان کا مرکزکاپیسا (موجودہ بگرام کے شمال میں) تھا۔ ان کشتری راجاؤں کی حکومت ٹیکسلہ اور ویہنڈ (موجودہ ھنڈ علاقہ صوابی میں) یعنی دریائے اٹک کے مغربی کنارے سے کابل، رخج، بست اور سیستان تک پھلی ہوئی تھی۔ (افغانستان۔ معارف اسلامیہ) ان کشتری راجاؤں کے خاندان کو البیرونی ترک بتاتا ہے۔ اس کی تصدیق اس طرح ہوتی ہے کہ ان کے القاب تگین اور تجین تھے۔ (ڈاکٹر معین الدین، عہد قدیم اور سلطنت دہلی۔ 225) اس خاندان کا بانی ب رہاتگین تھا اور اس کا آخری حکمران لکہ تورمن یعنی پشتو میں معنی شمشیرزن کے ہیں۔ اس خاندان کے آخری حکمران کو اس کے وزیر کلر عرف للیہ کو قید کر کے برہمن شاہی یا ہندو شاہی خاندان کی بنیاد ڈالی۔ (افغانستان۔ معارف اسلامیہ) ہنو ں 754ء نے ایرانی شہنشاہ یزد گر دوم کو شکست دی اور زیز گر مارا گیا اور ایرانیوں کا زور ٹوٹ گیا۔ ہنوں کا پایا تخت بلخ تھا۔ اس دوران ایک ہنوں کے قبیلے جولا نے غزنی اور اس کے نواح پر قبضہ کر لیا اور 774ء میں انھوں نے گندھارا پر بھی قبضہ نے کر لیا۔ چینی تحریریں بتاتیں ہیں ہنوں نے ایک شخص ’لائلی‘ کو گندھارا کا حکمران مقرر کیا۔ یہ حکمران ایک تیگن یا گورنر تھا۔ یہ نام کسی کتاب یا سکوں میں نہیں ملتا ہے۔ تاہم وہاں سے وہاں سے رام نیلا کے سکے ملے ہیں، ان میں توخری رسم الخط میں بلخ کا نام بھی درج ہے۔ چینیوں نے حکمران کا نام صحیح لکھا ہے لیکن وہ اکثر ذاتی نام کی بجائے وہ قبیلے کا نام بھی درج کردیتے ہیں۔ اس طرح لائلی قبائلی نام ہے۔ ہیونگ یانگ لکھتا ہے کہ یہاں کا بادشاہ پیش رو حکمرانوں کے ایک طویل شجرہ کا مالک ہے اور وہ سورج دیوتا کا پجاری ہے۔ اس شاہی خاندان کے وکبھا نامی بادشاہ کے سکے بھی ملے چکے ہیں اور اسن کی تحریر ظاہر کرتی ہیں کہ وہ ہندو مذہب اختیار کرچکے تھے۔ اس طرح یہ یعنی لالی جاٹ تھے۔ (بی ایس ڈاہیا۔ جاٹ، 275۔ 276) اس خاندان کا بسایا ہوا شہر ان کے نام سے تگین آباد تھا۔ یہ شہر قندھار کی حدود میں واقع تھا اور غوریوں کے دور تک آباد تھا، مگر اب اس کے محل و وقوع کا تعین نہیں ہوتا۔ (عبد الحءٰی حبیبی تقلمات طبقات ناصری۔ جلد دوم، 388)