کشن گڑھ (راجھستان) کا دبستان مصوری اور اور بنی ٹھنی
اس مضمون میں کسی قابل تصدیق ماخذ کا حوالہ درج نہیں ہے۔ |
اس مضمون کی ویکائی کی ضرورت ہے تاکہ یہ ویکیپیڈیا کے اسلوب تحریر سے ہم آہنگ ہو سکے۔ براہ کرم اس مضمون کی ویکائی میں مدد کریں۔ |
راجستھان میں مصوری کی روایت صدیوں قدیم ہے۔ خاص کر کشن گڑھ میں "مینچرز" تصاویر کے خدوخال، ساخت، رنگ اور بیانیہ اساطیری نوعیت کا ہے۔ کشن گڑہ کی مصوری میں ایک افسانوی یا فرضی کردار " بنی ٹھنی" کو ہمیشہ کلیدی حاصل رھی ہے۔ کشن گڑھ کے ساتویں (7) حکمران ساونت سنگھ (1699۔1764) جو مصور اور شاعر ھونے کے علاوہ فن نواز حکمران بھی تھے۔ ان کی سوتیلی ماں بینکاوتی جی نے دہلی کی ایک گائیکہ بنی ٹھنی کو اپنے دربار میں داخل کیا۔ بنی ٹھنی مغنیہ تو تھی ساتھ ہی ہندی کی شاعرہ اور اس کا حسن لاجواب تھا۔ کشن گڑھ کی مصوری مین اس کی نوک دار ناک، کمان دار ٹھوڑی اور صراحی دار گردن اور خوب صورت جسم نے کئی مصوروں کو مبالغے کی حد تک متاثر کیا اور بنی ٹھنی کو ہندوستان کی "مونا لیزا" بھی کہا گیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کی بنی ٹھنی کو راجھستاں اور فلورنس (اٹلی) کی فنکارانہ(مصورانہ)
دنیاوں کو ایک دوسرے میں ضم کردی گیا۔ کہا جاتا ہے کہ بنی ٹھنی کی صورت میں مونا لیزا کی تشریح نو بھی ھو ئی۔ جب بنی ٹھنی کشن گڑھ کے دربار میں بحثیت گلوکارہ شامل ھوئی تو ساونت سنگھ اس کے عشق میں گرفتار ھو گے تھے۔ وہ ویشنو تعلیمات کے زیر اثر رہے۔ ساونت سنگ، ناگری داس کے نام سے شاعری کیا کرتے تھے۔ وہ انتہا درجے کے عاشق مزاج تھے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کی "بنی ٹھنی" ساونت سنگھ کی "رکھیل "تھی۔ جس میں حسن، تہذیبی شائستگی، معاشرتی رکھ رکھاؤ بہت تھا۔ اسی سبب بنی ٹھنی کشن گڑھ کی تہزیبی، جمالیاتی قدر اور اساطیری کردار بن گئی۔ کشن گڑھ کی مصوری اور بنی ٹھنی پر پروفیسر ایرک ڈکنس ،کارل کنڈیلا اور ڈاکٹر فیاض علی خان نے اعلی درجے کا محققانہ اور تنقیدی کام کیا ہے جیسے للیت کلا اکادمی، دہلی نے شائع بھی کیا ہے۔ اور کشن کے مصور شہزاد علی خان نے اس حوالے شاندار تصاویربناکرمصوری کے اس مکتب فکر کو زندہ رکھا ھوا ہے۔(تحریر:احمد سھیل)