31 مئی 1935ء کو رات تین بج کر تین منٹ کا وقت تھا کہ کوئٹہ شہر کے باسی بے فکر سوئے ہوئے تھے۔کہ ہولناک زلزلے نے پورا شہر برباد کر دیا

پچاس ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بنے جب کہ سینکڑوں زخمی ہو گئے کوئٹہ کے پرانے باسی 82 سالہ ڈاکٹر نور یاسین اپنے بڑوں سے سنی ہوئی روداد بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ 30 مئی 1935 کو معمول سے زیادہ گرمی تھی ، لوگ گھروں کی چھتوں کے اوپر سوئے ہوئے تھے کہ مٹٰی کا طوفان چلنے لگ گیا اور پھر اچانک سے شدید زلزلہ آیا اور ، 70 ہزار افراد لقمہ اجل بنے سینکڑوں زخمی ہوئے ، 10 ہزار لوگ بچ گئے مرنے والے میں ان کے خاندان کے سات افراد بھی تھے۔

زلزلے کا مرکز بلیلی کے قریب تکاتو کا پہاڑ تھا ، شہر کے وسط سے گزرنے والے سٹی نالے سے اسطرف چھائونی تھی جہاں زلزلے کے جھٹکے کی شدت کم محسوس ہوئی تھی زلزلے کے بعد تمام مواصلاتی رابطے منقطع ہو چکے تھے تو اس وقت کے اسٹاف کالج کے انسٹرکٹر جنرل کیچر باہر آئے تو دیکھا ہر جانب آگ لگی ہوئی تھی ہر طرف لوگوں کی چیخ و پکار تھی ، انھوں نے اپنی گاڑی نکالی اور جاکر فوج کے اعلیٰ افسران کو اطلاع دی ڈاکٹر نور یاسین بتاتے ہیں کہ زلزلہ تین بج کر تین منٹ پر آیا اور پانچ بج کر 20 منٹ تک برطانوی فوج نے شہر کا کنٹرول سنبھال کر شہر میں نقشے کے مطابق آگ بجھانی شروع کی فیلڈ اسپتال قائم کر دیے ، لوگوں کو ریسکیو کیا طبی امداد فراہم کی ریلوے ٹریکس کو ملبہ صاف کر کے بحال کر دیا۔

ماہر ارضیات پروفیسر دین محمد کاکہنا ہے کہ 83 سالوں بعد کوئٹہ فالٹ لائن پر دوبارہ 1935 جیسے زلزلے کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں سائنس کے مطابق اس طرح کے خطرناک زلزلے ہر سو سال بعد دوبارہ آتے ہیں اس فالٹ پر توانائی کافی جمع ہو چکی ہے اورزلزلے کے امکانات پھر نمودار ہو رہے ہیں 1935 سے لے کر آج تک ہرسال 8 ملی میٹر زمین فالٹ لائن کے ساتھ سرک رہی ہے کوئٹہ کے آس پاس سارے پہاڑ اس انرجی کو سٹور کر رہے ہیں،زمین کے نیچے نیچرل فورسز تسلسل کیساتھ چل رہی ہیں ، بڑے زلزلے جہاں بھی آتے ہیں سو سال بعد وہ دوبارہ دہرائے جاتے ہیں مطلب زمین کا سرکنا سظح پر تو نظر آرہا ہے لیکن یہ سرکنا زیر زمین اٹک چکا ہے ، یہ اٹکنا اس وقت تک رہے گا جب تک زلزلہ نہیں آجاتا جیسے ہی دوسرا زلزلہ آتا ہے یہ یہ مدافعتی قوتیں کا اثر کم ہو جاتا ہے۔

پروفیسر دین محمد مزید کہتے ہیں کہ آواران ،تربت ہرنائی پشین اور چمن میں بھی زلزلوں کے خدشات ہیں ، 1935 کی نسبت آج صورت حال انتہائی خطرناک ہے ، بلڈنگ کوڈ کی خلاف ورزی جاری ہے ، کچھ عمارتیں بہتر بن رہی ہیں ، لیکن خطرات پھر بھی درپیش ہیں، کیونکہ اکثر مکانات فالٹ لائن سے بہت نزدیک ہیں ، کسی بھی صورت میں گلیاں سڑکیں تنگ ہین گیس لائنوں کی وجہ سے آگ لگنے اور پانی ناپید ہونے کا خدشہ پیدا ہوجائے گا ۔ آئندہ زلزلے سے نمٹنے کے لیے ہم نے کوئی اقدامات نہیں کیے ماحول شہر اور بلڈنگ کو دیکھتے ہوئے صورت حال بہت زیادہ خطرناک ہے