کھوج بینی (انگریزی: Discovery) کسی نئی چیز کو ڈھونڈ کر نکالنے یا کسی سابقًا غیر تسلیم شدہ شے کو معنی خیز بتانے کے عمل کو کہا جاتا ہے۔ سائنس اور تعلیمی شعبوں میں کھوج بینی نئے مظاہروں، عملوں یا واقعات کا مشاہدہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ نئی توجیہ کی فراہمی ہے تاکہ ان مشاہدات میں ماخوذ معلومات کو سابق میں حاصل کردہ معلومات کی روشنی میں سمجھانے کی کوشش ہے جو مجرد خیالات اور روز آنہ کے تجربوں پر مشتمل ہو سکتی ہے۔[1] تازہ کھوج بینی کبھی کبھار سابقہ کھوج بینی، مشارکتوں یا ترکیبوں پر مبنی ہو سکتی ہے۔ کچھ کھوج بینیاں معلومات یا ٹیکنالوجی کے شعبے میں انقلابی تبدیلیاں لا سکتی ہیں۔

افادیت ترمیم

اکثر دیکھا گیا ہے کہ بچپن میں ہی میں بچے سے ماں باپ اس کی آزادی چھین لیتے ہیں اور اسے ہم اپنی خواہشات اور اپنے طریقوں کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے مجبور کرتے ہیں۔ یہ تیسرا دور لڑکپن کا ہے جو بارہ سے پندرہ سال تک رہتا ہے۔ اس کے مطابق یہ دور وجوہات اور وجہ بیانی کا دور ہے یعنی وہ ہر بات کی وجہ ایک بڑھتا بچہ / نوجوان جاننا چاہتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر بات کی کھوج بینی میں لگ جاتا ہے اور اس کی وجہ معلوم کرکے ہی دم لیتا ہے۔ اس دور میں بچہ اپنے خود کے اصول بناتا ہے۔ یہ دیکھا بھی گیا ہے کہ عام طور سے بچے ماں باپ کی باتوں سے زیادہ اپنے ہم جولی اور ساتھیوں کی باتوں کی طرف زیادہ دھیان دیتے ہیں جبکہ والدین کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ ان کی خواہشات کے پابند ہو جائیں اس کشمکش میں بچے سنِ بلوغت تک پہنچتے پہنچتے باغی ہو جاتے اوپھر وہ وہی کام کرتے ہیں جو انھیں پسند ہوتا اور وہ اپنے والدین کی مرضی کے خلاف ہی کام کرتے ہیں۔[2] کھوج بینی ایجاد سے اس طرح مختلف ہے کہ ایجاد میں کوئی نئی چیز کی تخلیق شامل ہوتی ہے جب کہ کھوج بینی میں پہلے موجود پہلوؤں پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔ سماجی اصول، سائنسی ضوابط، سماجی نظریات، عوامی رجحانات وغیرہ سب کھوج بینی کے موضوعات ہیں۔ جب کہ نئے سائنسی آلات، نئی ٹیکنالوجی وغیرہ ایجادات کا حصہ ہیں۔

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. Paul Rincon (12 دسمبر 2011)۔ "Higgs boson: Excitement builds over 'glimpses' at LHC"۔ بی بی سی نیوز۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 دسمبر 2011 
  2. طفلِ مرکوز تعلیم اور عظیم مفکر روسو :- محمد قمر سلیم[مردہ ربط]